ڈاکٹر نعمان نعیم
خواتین کی علمی خدمات
عہدِ نبویؐ میں خواتین کی تعلیم کا آغاز ایک نئے دور کا غماز تھا، جہاں خواتین کو تعلیم کے حصول کا حق دیا گیا اور انہیں مختلف دینی، علمی، اور معاشرتی میدانوں میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت امّ سلمہؓ، حضرت حفصہؓ اور دیگر ازواجِ مطہراتؓ نے نہ صرف علم دین کی تعلیم حاصل کی، بلکہ اس علم کو دوسرے صحابہؓ تک منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان خواتین نے حدیث، فقہ، تفسیر اور دیگر دینی موضوعات میں گہرائی سے علم حاصل کیا اور اپنی مرویات کے ذریعے اسلامی تاریخ میں علم کے خزانے کا اضافہ کیا۔ ان کی علمی خدمات نہ صرف اس دور کی خواتین کے لیے ایک روشن مثال ہیں،بلکہ آج بھی ان کی تعلیمات اور روایات مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ نوعمری میں نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئیں اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد 48 سال تک دین کی خدمت کرتی رہیں۔ آپ کا حافظہ نہایت قوی تھا اور آپ سے 2,210 احادیث روایت کی گئیں، جن میں 273 احادیث بخاری اور مسلم میں شامل ہیں۔ آپ مسائل کے حل میں صحابہ کرامؓ کی رہنمائی کرتی تھیں اور حدیث کی حکمت و معانی کو بیان کرتی تھیں۔ آپ کے شاگردوں میںسو سے زائد صحابہؓ اور تابعینؒ شامل ہیں، جن میں عروہ بن زبیر اور مسروق بن اجدع جیسے جلیل القدر علماء شامل ہیں۔
حضرت ام سلمہؓ کو حدیث سننے اور محفوظ کرنے کا خاص شغف تھا۔ آپ کے حجرے میں اہل بیت سے متعلق آیات نازل ہوئیں۔ آپ نے 378 احادیث روایت کیں، جن میں بخاری اور مسلم کی احادیث بھی شامل ہیں۔ آپ ایک مفتیہ بھی تھیں اور آپ کے کئی فتاویٰ معروف ہیں۔ آپ کے شاگردوں میں اسامہ بن زید اور عروہ بن زبیر شامل ہیں۔ حضرت حفصہؓ کو نبی کریم ﷺ سے بلاواسطہ احادیث سننے کا موقع ملا۔ آپ سے 60 احادیث روایت کی گئیں، جنہیں بڑے صحابہؓ نے نقل کیا۔
حضرت میمونہؓ نے نبی کریم ﷺ سے وقتاً فوقتاً احادیث سنیں اور 46 روایات نقل کیں۔ آپ کے شاگردوں میں عبداللہ بن عباسؓ اور عطاء بن یسارؓ جیسے مشاہیر شامل ہیں۔حضرت جویریہؓ سے سات احادیث روایت کی گئی ہیں، جن میں علمی اور دینی مسائل شامل ہیں۔ حضرت سودہؓ سے 8 احادیث روایت کی گئیں، جو دینی تعلیمات کی ترویج میں معاون ثابت ہوئیں۔حضرت اسماء بنت عمیس ؓ 160 احادیث کی راویہ ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ158 احادیث کی راویہ ہیں۔ام المومنین ام حبیبہ ؓ 65 احادیث کی راویہ ہیں۔ حضرت میمونہ ؓ 76 احادیث کی راویہ ہیں۔
ام المومنین حضرت حفصہؓ60 احادیث کی راویہ ہیں۔اسماء بنت یزید ؓ 81احادیث کی راویہ ہیں۔ امّ ہانی ؓ46احادیث کی روایہ ہیں۔ امّ فضل بنت حارثؓ30احادیث کی راویہ ہیں۔ فاطمہ بنت قیسؓ 34 احادیث کی راویہ ہیں۔ (دیکھیں: الوفا بأسماء النساء، جلد نمبر دو اور تین)
دورِ تابعین میں خواتین کی علمی خدمات
امّ درداءؒ نے علم حدیث اور فقہ میں گہرا اثر چھوڑا۔ آپؒ کی علمی مجالس میں مرد و خواتین دونوں شریک ہوتے تھے، اور امام حسن بصریؒ جیسے علماء آپؒ سے استفادہ کرتے تھے۔ رابعہ بصریہؒ نے تصوف کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپؒ کی تعلیمات اخلاقیات، عبادات اور زہد پر مشتمل تھیں، جو آج بھی صوفیاء کے لیے مشعل راہ ہیں۔
فاطمہ بنت منذر علم حدیث کی مشہور عالمہ تھیں۔ آپؒ نے اپنے شوہر اور دیگر تابعین سے علم حاصل کیا اور متعدد احادیث روایت کیں۔عاتکہ بنت زیدؓ قرآن، حدیث اور ادب کی ماہر تھیں۔ آپؒ نے مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور علمی مباحث میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ام خلادؒ نے علم حدیث کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپؒ کے علمی سوالات اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی جستجو علماء کے لیے مشعل راہ تھی۔ (الوفا بأسماء النساء)
قرون وسطیٰ میں خواتین کی علمی خدمات
فاطمہ الفہریؒ نے مراکش میں "جامعہ القرویین" کی بنیاد رکھی، جو دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ یہ ادارہ علم کے فروغ کا مرکز رہا اور دنیا بھر کے طلبہ نے یہاں تعلیم حاصل کی۔ زینب بنت احمدؒ علم حدیث کی مشہور عالمہ تھیں۔ آپؒ کی علمی مجالس میں علماء اور طلبہ شریک ہوتے تھے، اور آپؒ کی روایت کردہ احادیث کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لبابہ بنت عبداللہؒ فقہ اور ادب کی ماہر تھیں۔
آپؒ کی تعلیم و تدریس نے اسلامی ادب اور قانون کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ رابعہ عدویہؒ تصوف کے میدان میں ایک نمایاں شخصیت تھیں۔ ان کی تعلیمات نے اسلامی اخلاقیات اور زہد کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ مریم الاسطرلابی ایک مشہور مسلم سائنس دان تھیں، جنہوں نے فلکیات اور اسطرلاب کے شعبے میں تحقیق کی۔ ان کے بنائے ہوئے آلات صدیوں تک مسلم اور غیر مسلم دنیا میں استعمال ہوتے رہے۔( الوفا بأسماء النساء)
عہدِ نبویؐ اور خلافتِ راشدہ اور اسلامی تاریخ کے روشن دور میں خواتین کی علمی خدمات اسلامی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ان خواتین نے اپنے گہرے علم، مضبوط حافظے اور دین سے گہری وابستگی کے ذریعے علم کے فروغ میں جو کردار ادا کیا، وہ رہتی دنیا تک قابلِ تقلید رہے گا۔
حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، اور دیگر ازواجِ مطہراتؓ نے نہ صرف دینِ اسلام کی تعلیمات کو محفوظ کیا، بلکہ اپنے شاگردوں کے ذریعے علم کے اس چشمے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کیا۔
ان کی مرویات، فتاویٰ اور علمی بصیرت سے امتِ مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے۔ یہ خواتین نہ صرف اپنے وقت میں بلکہ آج بھی امت کے لیے علمی مشعلِ راہ ہیں، اور ان کی خدمات ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ علم کی جستجو میں جنس کی کوئی قید نہیں اور یہ ورثہ ہر مسلمان کے لیے باعثِ فخر ہے۔
اکابرینِ امت کی علمی و فکری تشکیل میں خواتین کا کردار
اکابرینِ امت کی تعلیم و تربیت میں خواتین کا کردار اسلامی تاریخ کا ایک اہم پہلو ہے، جس نے امت کے علمی و فکری ارتقاء میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ابتدائی دور سے لے کر بعد کے ادوار تک خواتین نے نہ صرف علم کے حصول میں دلچسپی لی ،بلکہ اپنی علمی صلاحیتوں کو اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی استعمال کیا۔
یہ خواتین محدثات، معلمات اور مربیات کی حیثیت سے معاشرے کے نمایاں افراد کی تربیت میں شریک رہیں۔ اکابرین امت، جنہوں نے اسلامی علوم میں گراں قدر خدمات انجام دیں، ان میں سے کئی شخصیات کی علمی بنیاد خواتین کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھیں۔ خواتین کا علم حاصل کرنا نہ صرف ان کی اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے ،بلکہ یہ پوری نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی لازمی ہے۔
ایک عورت محض ایک فرد نہیں، بلکہ ایک خاندان کی معلمہ اور تربیت کی بنیاد ہے۔ جب ایک عورت علم کے زیور سے آراستہ ہوتی ہے تو وہ اپنی اولاد کی بہتر تربیت کرنے کے قابل ہوتی ہے، جو کہ معاشرے کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، "ایک تعلیم یافتہ عورت ایک تعلیم یافتہ نسل کی ضمانت ہے۔" اسلامی تعلیمات بھی خواتین کے لیے علم کے حصول کو ضروری قرار دیتی ہیں، کیونکہ یہ دین کی تفہیم، اخلاقی اقدار کی مضبوطی، اور سماجی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
کئی مشہور فقہاء ومحدثین اور دیگر اکابرینِ امت کی تعلیم وتربیت میں خواتین کا اہم اور نمایاں کردار رہا ہے، وہ خود گمنام رہیں، لیکن انہوں نے امت کے لیے کئی رہنما وپیشواتیار کیے، جنہوں نے مسلمانوں کے لیے دینی، علمی، سماجی اور ملّی خدمات انجام دیں، لہٰذا دورِ حاضر میں ایسی رجال ساز خواتین کا تذکرہ لوگوں کے سامنے پیش کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے، تاکہ عہدِ حاضر کی مسلمان عفت مآب خواتین بھی ان کی پیروی کرکے ایک فرد کے بجائے رجالِ کار تیار کریں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کی تعلیم کے مقاصد درج ذیل ہو سکتے ہیں: مردوں کی طرح خواتین کے لیے بھی دینی تعلیم لازمی ہے کیونکہ اس سے آگاہ ہوئے بغیر دین و شریعت پر عمل پیرا ہونا ممکن نہیں۔ خواتین کی تعلیم کا بنیادی ہدف یہی ہے کہ انہیں بہترین مسلمان اور بہترین انسان بنایا جائے جو کہ دینی تعلیم ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔
عورتوں کے مخصوص نسوانی مسائل، طہارت، عبادات، حقوق اللہ ، حقوق العباد، خانگی اور معاشرتی فرائض سے متعلق آگاہی اس نظام تعلیم کا خصوصی ہدف ہونا چاہیے۔ یہ تعلیم ان کے لیے دیگر علوم وفنون کی تحصیل سے زیادہ اہم اور مقدم ہے۔ یہ موضوعات عہد نبوی میں خواتین کے تعلیمی نصاب کا اہم حصہ رہے ہیں۔
آج خواتین میں غیر متعلق تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے رجحان سے بھی متعدد سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں مثلاً مناسب رشتوں کی کمیابی، شادیوں میں غیر ضروری تاخیر،خاندان میں ایڈ جسٹمنٹ (Adjustment) اور ازدواجی زندگی کے دیگر متعدد مسائل اس کا نتیجہ ہیں۔
حالانکہ حدیث نبویﷺ کی رو سے " جس نے نکاح کر لیا اس نے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیا۔( مشکوٰۃ المصابیح، رقم: 3096) اس لیے ہر اس تعلیم سے اجتناب کی ضرورت ہے جو عورت کی فطرتی زندگی شادی وغیرہ میں رکاوٹ بنے اور اسے بے راہ روی ، بدکاری اور خفیہ آشنائی کے مواقع فراہم کرے۔
اس سلسلے میں والدین کی ذمہ داریوں سے متعلق نبی کریم ﷺ نے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:جس کے ہاں اولاد ہو اسے چاہئے کہ اسے اچھا ادب سکھائے ، اس کا اچھا نام رکھے جب وہ بالغ ہو تو اس کی شادی کرائے ، اگر بلوغت کے بعد بھی اس کی شادی نہ کی اور اس نے کوئی گناہ کیا تو اس کا گناہ باپ کے سر ہے۔ (شعب الایمان، رقم: 8299) ( …جاری ہے …)