• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوڈ سیفٹی اسیسمنٹ کے چار بین الاقوامی اصولوں کو مد نظر رکھاجائے، شرکاء ورکشاپ

اسلام آباد( جنگ نیوز) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO) نے وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کے اشتراک سے پاکستان میں فوڈ کنٹرول سسٹم اسیسمنٹ پر ورکشاپ کا انعقاد کیاجس میں حکومتی اداروں، بین الاقوامی تنظیموں، نجی شعبے، مختلف وزارتوں اور فوڈ انڈسٹری کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ورکشاپ کا مقصد پاکستان میں خوراک کے تحفظ اور معیار سے متعلقہ چیلنجز اور مواقع پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ ایف اے او پاکستان کی نمائندہ فلورینس رولے نے خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ایسی مضبوط حکمت عملیوں کی ضرورت پر زور دیا جو نہ صرف عوامی صحت بلکہ معیشت، تجارت اور خوراک کے تحفظ کو بھی فروغ دیں۔ انہوں نے فوڈ سیفٹی اسیسمنٹ کے چار کلیدی بین الاقوامی اصول پیداوار سے کھپت تک فوڈ سیفٹی ،خوراک کی حفاظت کو پورے سپلائی چین میں یقینی بنانا، واضح ذمہ داریوں اور کرداروں کی تقسیم،فوڈ سپلائی چین میں تمام فریقین کے کردار کو واضح کرنا، سائنس پر مبنی خطرات کا تجزیہ، پالیسی سازی میں تحقیق و تجزیے کی بنیاد پر فیصلے لینا، سپلائی چین میں شفافیت، قوانین اور ریگولیٹری فریم ورک کو مزید مؤثر بنانا کا ذکر کیا ۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے فوڈ سیفٹی اور ریگولیشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خوراک کا تحفظ صرف صحت کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے بھی ناگزیر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان غذائی قلت اور خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہے جو خاص طور پر بچوں کی مجموعی صحت پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اُڑان پاکستان کے تحت برآمدات پاکستان کی معاشی ترقی کی بنیاد ہوں گی اور پاکستان اپنی زراعتی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خوراک اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر پاکستان کو عالمی سطح پر زرعی مصنوعات کی برآمدات بڑھانی ہیں تو عالمی فوڈ سیفٹی سرٹیفکیشن، قواعد و ضوابط اور معیارات کو سمجھنا اور ان پر مکمل عمل درآمد کرنا ناگزیر ہوگا۔ورکشاپ میں FAO ہیڈکوارٹرز، روم سے سینئر فوڈ سیفٹی آفیسر کیتھرین بیسی نے پاکستان کے فوڈ سیفٹی ریگولیٹری فریم ورک پر پریزنٹیشن پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک فرد خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے، جو عالمی اوسط سے دوگنا زیادہ ہےاور اس کے باعث سالانہ تقریباً 1.7 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔ نادیہ رحمان، ممبر (فوڈ سیکیورٹی اینڈ کلائمیٹ چینج)، پلاننگ کمیشن نے پاکستان کو درپیش اہم فوڈ سیفٹی چیلنجز اور ان کے حل پر روشنی ڈالی۔میجر جنرل ایوب احسن، ڈائریکٹر جنرل، LIMS نے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی زرعی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے اعتماد اور شفافیت انتہائی اہم عوامل ہیں۔شرکاء نے فوڈ سیفٹی کے قوانین کو مزید مضبوط بنانے، عالمی معیار پر عمل درآمد کو یقینی بنانے، برآمدی مواقع بڑھانے اور صارفین کے تحفظ کو اولین ترجیح دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
اسلام آباد سے مزید