• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’شعبان‘‘ رب کے حضور عبادات و مُناجات اور استقبالِ رمضان کا مہینہ

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے رجب، شعبان، رمضان اور محرم عظمت والے مہینے مقرر فرمائے۔ شعبان المعظم وہ بابرکت مہینہ ہے، جن میں تمام بھلائیوں کے دروازے بندوں کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں۔ آسمان سے برکتیں نازل کی جاتی ہیں۔ گناہ گار بندے بخشش کی سند پاتے ہیں اور برائیاں مٹا دی جاتی ہیں۔ اسی لئے شعبان کو ’’المکفّر‘‘ یعنی گناہوں کی بخشش کا ذیعہ بننے والا مہینہ کہا جاتا ہے ’’شعبان کو شعبان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں بہت سی نیکیاں پھیلتی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان اقدس سے شعبان المظم کی بڑی فضیلت و اہمیت بیان فرمائی۔ اس ماہِ مبارک کی اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شعبان کو اپنا مہینہ قرار دیا اور اس ماہ عظیم کی حرمت و تعظیم کو اپنی حرمت و تعظیم قرار دیا۔ 

آپ ﷺ نے فرمایا ’’ رجب اللہ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ ‘‘ ام المومینین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’شعبان میرا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جو گناہوں سے پاک کر دیتا ہے۔ ‘‘ (کنز العمال)

حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’دو عظمت والے مہینوں رجب اور رمضان کے درمیان ایک ایسا مبارک مہینہ ہے، جسے شعبان کہا جاتا ہے ،جس کی فضیلت و برکت سے لوگ غافل ہیں۔ اسی مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اسی لئے میں اس مہینے میں روزے رکھنا پسند کرتا ہوں، تاکہ جب میرا نامۂ اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو تو میں روز ے دار ہوں‘‘۔ 

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ ماہِ شعبان میں حضور ﷺ کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کو روزے رکھنے کے لئے شعبان کا مہینہ بہت پسند تھا۔ آپ شعبان میں اس کثرت اورتسلسل سے روزہ رکھتے تھے کہ گویا آپ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔ (سنن ابوداؤد)

معلوم ہوا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان تو ایک ایسا مہینہ ہے جس میں روزے فرض ہیں۔ آپ ﷺ پورا رمضان تو روزے رکھتے ہی تھے، لیکن بقیہ گیارہ مہینوں میں سب سے زیادہ روزوں کا اہتمام آپ ﷺ شعبان میں فرماتے تھے۔ 

آخر کار کوئی تووجہِ فضیلت ہو گی اور کوئی تو خیر کا پہلو ہوگا جو ماہِ شعبان کو ایسی فضیلت و بزرگی عطا کی گئی اور وہ وجہ فضیلت وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی کہ ’’ اس ماہ مبارک میں بندوں کے اعمال بارگاہ الہٰی میں پیش کئے جاتے ہیں جو شخص اس مہینے میں جتنے زیادہ اعمال صالحہ بجا لاتا ہے، زیادہ عبادات کرتا ہے، روزے رکھتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے ،اسے اتنی ہی اللہ کی رحمت و مغفرت نصیب ہوتی ہے اور اسی قدر بارگارہِ الہٰی سے قرب اور مقبولیت نصیب ہوتی ہے۔ امام قسطلانیؒ نے ’اپنی کتاب ’’مواہب اللدنیہ‘‘ میں بڑی لطیف بات لکھی ہے کہ ’’ بے شک شعبان رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا مہینہ بھی ہے۔ 

اس لئے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کی آیت مبارکہ ’’بےشک، اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو! تم بھی آپ ﷺ پر درود اور خوب سلام پیش کیا کرو۔‘‘ یہ آیت مبارکہ ماہ شعبان میں نازل ہوئی تو شعبان کا تعلق حضور ﷺ کے ساتھ بھی ہے، لہٰذا اس ماہِ مبارک اور شبِ برأت کی عبادت سے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ سے بھی قربت نصیب ہوتی ہے اور اللہ کی بارگاہ میں بھی قرب حاصل ہوتا ہے۔

حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ْﷺنے فرمایا ’’رجب کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہی ہے، جیسے قرآن کی فضیلت تمام الہامی کتابوں پر اور ماہِ شعبان کی فضیلت دوسرے تمام مہینوں پر ایسی ہی ہے، جیسے میری فضیلت تمام انبیائے کرامؑ پر ہے اور رمضان کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہی ہے، جس طرح اللہ رب العزت کی تمام مخلوق پر ‘‘۔ (غنیتہ الطالبین)

یعنی رمضان کے بعد شعبان کا مہینہ تمام مہینوں سے زیادہ فضیلت، عظمت اور رحمت و برکت کا حامل ہے جس طرح اللہ جل جلالہ کے بعد اس کی تمام مخلوق میں حتیٰ کہ انبیائے کرام علہیم السلام میں سب سے زیادہ فضیلت و رفعت کے حامل رسول اللہ ﷺ ہیں۔

حضرت انس بن مالک ؓ کے فرمان کے مطابق شعبان کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ شعبان قرآن ، زکوۃٰ ، خیرات اور صدقات کا مہینہ بھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک جاتے ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالتے ہیں، تاکہ غریب ، مسکین اور محتاج لوگ روزے اور ماہِ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں‘‘۔ (لطائف المعارف) 

احادیث نبویہ کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ شعبان المعظم نفس کو پاکیز گی عطا کرنے والا، دلوں کو طہارت و پاکیزگی بخشنے اور فکر و ذہن اور دل و دماغ کو نور ایمانی سے جگمگانے والا مہینہ ہے، اس لئے اس ماہِ مبارک میں ہمیں ہر وہ نیک کام کرنا چاہئے، جس سے دلوں کی صفائی ہو۔ 

صدقات و خیرات ، تلاوت و عبادات، درود و استغفار کی کثرت اور تسلسل کے ساتھ روزے کے ذریعے اتنی پریکٹیس اور مشق کر لیں کہ آنے والے مہینے رمضان کا خوش دلی اور خندہ پیشانی سے استقبال کر سکیں اور اس کی برکتوں سے مالا مال ہو سکیں۔