• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عصرِ حاضر میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے درپیش مسائل و چیلنجز اور اُن کا حل

ڈاکٹر نعمان نعیم

(گزشتہ سے پیوستہ)

خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول نہ صرف ان کی فنی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے، بلکہ انہیں معاشرتی اور معاشی طور پر خود مختار بنانے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ تدریس، طب، نرسنگ، اور ہوم اکنامکس جیسے شعبے خواتین کے لیے اہم میدان ہیں، جہاں وہ نہ صرف اپنے خاندان کی فلاح کے لیے کام کر سکتی ہیں، بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بھی بہتر طریقے سے بروئے کار لا سکتی ہیں۔ تدریس کا شعبہ ان کی شخصیت اور فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے، جبکہ طب اور نرسنگ میں خواتین کی موجودگی صحت کے شعبے میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ 

ہوم اکنامکس کے ذریعے خواتین کو گھریلو خدمات میں مہارت حاصل ہوتی ہے، جو انہیں اپنے خاندان کے لیے بہتر زندگی فراہم کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ان شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے سے خواتین کو فطری صلاحیتوں کے مطابق ایک متوازن اور کامیاب زندگی گزارنے کے مواقع ملتے ہیں، جو نہ صرف ان کی ذاتی ترقی بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

خواتین کا اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ نہ ہونا بہت بڑی جہالت ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ ، آگاہی نہ ہونے سے جہاں گھریلو ماحول متاثر ہوتا ہے، وہاں شرعی اور قانونی حقوق سے ناواقفیت کی بناء پر استحصال اور ظلم و زیادتی کی شکلیں سامنے آتی ہیں۔ 

رسول اللہ ﷺ کے عطا کردہ نظام زندگی میں اخلاقی اور باطنی تربیت کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان کے خلاف ظلم و استحصال کا ازالہ بھی تھا۔ آپ ﷺ نے اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے خواتین میں اتنا شعور پیدا فرما دیا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے ادراک کے ساتھ ساتھ، ان کے تحفظ کے لئے بھی سر گرم رہیں ، اگر ان پر ذراسی بھی زیادتی ہوتی تو فوراً بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر دادرسی چاہتی تھیں۔

تعلیم تربیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، مگر جدید تصور تعلیم نے اسے اقدار کی گرفت سے آزاد کر دیا ہے۔ تعلیم کی مذہب اور اقدار سے علیحد گی مسائل کی جڑ ہے۔ خواتین کی تعلیم کا ایک اہم مقصد اعلیٰ اخلاق و اقدار کی ترویج و تحصیل ہونا چاہئے تاکہ نسوانیت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ شرم و حیاء کے تقاضے بخوبی پورے ہو سکیں اور تقویٰ، خدا خوفی، صبر و شکر ، سادگی اور قناعت جیسے اوصاف کے ذریعے ان کی شخصیت کی بہتر تعمیر و تشکیل ممکن ہو سکے۔ عہد نبوی میں خواتین میں ان اقدار کے احیاء کی طرف بھر پور توجہ دی گئی۔

مذکورہ مقاصد و اہداف کو نظر انداز کرنے اور گلوبلائزیشن کے زیر اثر مغرب کی اندھی تقلید کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ آزادانہ مردوزن کا اختلاط، باہمی مسابقت کی فضاء، نسوانی اور پیشہ وارانہ فرائض سے پہلو تہی، نئی نسل کی تربیت سے غفلت، خاندانی زندگی کا بگاڑ، طلاق کی کثرت، شادیوں میں غیر ضروری تاخیر اور اخلاقی بے راہ روی اسی نظام کے مضر اثرات ہیں۔

خواتین کی تعلیم و تربیت عصرِ حاضر کے چیلنجز اور ان کا حل 

خواتین کی تعلیم ہر معاشرے کی ترقی کے لیے اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم نہ صرف عورتوں کی زندگی میں انقلاب لاتی ہے، بلکہ پورے معاشرے کی ترقی اور فلاح کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت دی گئی ہےاور قرآن و سنت میں اس کی ترغیب دی گئی۔ 

تاہم، اس کے باوجود بہت سے مسلم معاشروں میں خواتین کی تعلیم کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جو خواتین کے تعلیمی حقوق کی راہ میں حائل ہیں۔ ذیل میں ہم بعض مسائل و چیلنجز کا جائزہ لیں گے اور ان کے ممکنہ حل پر غور کریں گے، تاکہ خواتین کی تعلیم کے میدان میں مزید پیش رفت کی جا سکے۔

سماجی رکاوٹیں:۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج سماجی رکاوٹوں کا ہے۔ کئی معاشروں میں خواتین کی تعلیم کو غیر ضروری یا روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے والدین اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنے میں ہچکچاتے ہیں۔ اس کا حل اسلامی تعلیمات کے ذریعے خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا، علما اور سماجی رہنماؤں کو خواتین کی تعلیم کے حق میں کردار ادا کرنے کی ترغیب دینا، اور اسکولوں میں والدین کے لیے آگاہی پروگرامز منعقد کرنا ہے۔

معاشی مسائل:۔ معاشی وسائل کی کمی بھی خواتین کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں خاندان تعلیمی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ حکومت وظائف اور مالی امداد کے پروگرام شروع کرے، نجی شعبے اور فلاحی اداروں کو شامل کرکے تعلیمی وظائف کا دائرہ بڑھایا جائے،اور دیہی علاقوں میں کم خرچ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔

تعلیمی نظام کی کمزوریاں:۔ تعلیمی اداروں میں سہولیات کی کمی، خواتین اساتذہ کی غیر موجودگی، اور معیاری تعلیم کی عدم فراہمی بھی ایک اہم چیلنج ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ خواتین اساتذہ کی بھرتی اور تربیت پر توجہ دینا، اسکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم کرنا، خاص طور پر بیت الخلاء اور محفوظ ماحول، اور نصاب میں خواتین کے حقوق اور ان کے کردار پر مشتمل مواد شامل کرنا ہے۔

دیہی اور شہری علاقوں میں فرق:۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی کمی شہری علاقوں کے مقابلے میں نمایاں ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں موبائل اسکولز اور آن لائن تعلیم کے ذرائع کو فروغ دیا جائے، حکومت کو دیہی تعلیمی اداروں کے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے، اور دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔

انتہا پسندی کا سامنا:۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ حکومتی اور غیر حکومتی تنظیموں کو انتہا پسند نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے آگاہی مہم چلانی چاہیے، تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے، اور علماء اور مذہبی رہنماؤں کو شامل کرکے خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔

مغربی تہذیب کا اثر:۔ تعلیمی اداروں میں مغربی کلچر کا بڑھتا ہوا اثر خواتین کی تعلیم کے لیے ایک اہم رکاوٹ بن رہا ہے۔ بہت سے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا مستقبل خطرے میں پڑ رہا ہے۔ 

مغربی کلچر کی فضا نے تعلیمی اداروں میں ایک ایسی فضا قائم کر دی ہے جہاں اسلام کے مطابق حجاب، اخلاقی حدود اور اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اسلامی اقدار کی ترویج کی جائے، اور تعلیمی نصاب میں اسلامی تاریخ، ثقافت، اور اقدار پر زور دیا جائے۔ 

حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو اجاگر کرے اور نوجوانوں کو مغربی کلچر کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ یہ اقدامات نہ صرف خواتین کی تعلیم کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں معاون ہوں گے، بلکہ ایک مضبوط اور متوازن معاشرہ تشکیل دینے میں بھی مدد کریں گے۔

خواتین کی تعلیم اورطریقہٴ کار

خواتین کی تعلیم ضروری ہے اس سے کوئی انکارنہیں کرسکتا، لیکن تعلیم کا طریقہٴ کار کیاہو؟ آیا وہی طریقہ اپنایاجائے، جو لڑکوں کی تعلیم کے لیے رائج ہے یا اسلاف کے طریقوں میں غوروخوض کرکے بہتر طریقہٴ کار تلاش کیاجائے۔اس سلسلے میں جب ماضی کے دریچوں میں جھانک کر تعلیم نسواں پر غور کرتے ہیں تو دور نبوت کے ایک واقعے سے اس سلسلے میں رہنمائی ضرور ملتی ہے کہ حضوراقدس ﷺنے عورتوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک علیحدہ دن مقرر فرمایا تھا۔ 

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس طرح مردوں کے لیے مسجد نبوی ؐمیں صفّہ کا تذکرہ ملتا ہے، عورتوں کے لیے اس طرح کے کسی صفّہ یاکسی خاص مقام کا تذکرہ دور نبوی ؐمیں نظر نہیں آتا۔ خیرالقرون میں خواتین اپنے محارم اور شوہروں سے علم دین حاصل کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی بے شمار محدثات، فقیہات، ادیبہ اور شاعرات کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن باضابطہ کسی مدرسہٴ نسواں کا باقاعدہ ذکر نہیں ملتا، اور نہ ہی خواتین کاحصول علم کے لیے دور دراز مقام کے سفر کا کوئی تذکرہ تاریخ وسیر کی کتابوں میں دستیاب ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے کہ اس دور میں باکمال خواتین پیدا نہیں ہوئیں، بلکہ ہرزمانے اور ہر عہد میں ہر فن میں ممتاز خواتین پیدا ہوئیں، جنہوں نے اپنے علم وفن سے عالم انسانیت کو حیران و ششدر کردیا۔

نتائج و سفارشات

تعلیمِ نسواں کو فروغ دینے میں کئی اہم چیلنجز اور مسائل موجود ہیں ،جن میں مغربی کلچر کا اثر، معاشی مشکلات، اور تعلیمی نظام میں عدم مساوات شامل ہیں۔ ان چیلنجز کا حل تب ہی ممکن ہے، جب خواتین کے لیے ایسے تعلیمی مواقع فراہم کیے جائیں جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں، تاکہ وہ اپنے معاشرتی، ذاتی، اور پیشہ ورانہ حقوق سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔

معاشی مشکلات اور تعلیمی فیسوں کی وجہ سے بہت سی غریب خواتین تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں، جس کے نتیجے میں ان کی صلاحیتوں کا بھرپور استفادہ نہیں ہو پاتا۔ اس کے لیے مؤثر اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق پروگرامز متعارف کرائے جائیں، تاکہ خواتین کو اسلامی حدود کے اندر رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی راہ ملے۔ 

مغربی ثقافت کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے اسلامی اقدار کی اہمیت پر زور دیا جائے، تاکہ خواتین کی تعلیم میں مغربی اثرات کم سے کم ہوں۔ تعلیمی اداروں میں خواتین کے لیے محفوظ اور معاون ماحول فراہم کیا جائے، تاکہ وہ بغیر کسی خوف یا رکاوٹ کے اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔ ان سفارشات کو عملی جامہ پہنانے سے نہ صرف خواتین کی تعلیم میں بہتری آئے گی، بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے میں ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد بھی رکھی جا سکے گی۔