اسلام آباد (عمر چیمہ) ایڈیشنل سیشن جج قاسم جاوید چوہدری نے عالمی درجہ بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے تاثر کو چیلنج کیا ہے، جس میں پاکستان کے نظامِ انصاف کو فہرست میں نچلے درجے پر رکھا گیا تھا۔ اُن کی دلیل ہے کہ پاکستانی عدلیہ جنوبی ایشیائی خطے بشمول بھارت اور ترکی جیسے مسلم اکثریتی ممالک کی عدالتوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ دو سال قبل، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ نے قانون کی حکمرانی کے حوالے سے پاکستان کو 142 ممالک میں سے 130ویں نمبر پر رکھا تھا۔ تاہم، ایڈیشنل سیشن جج قاسم جاوید چوہدری نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ یہ درجہ بندی مجموعی طور پر قانون کی حکمرانی کی عکاسی کرتی ہے اور صرف عدلیہ تک محدود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ درجہ بندی میں جن 8؍ عوامل کو مدنظر رکھا گیا ہے، ان میں سے صرف دو یعنی سول جسٹس اور کریمنل جسٹس کا براہ راست تعلق عدلیہ سے ہے۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ ان دونوں عوامل میں بھی کئی ذیلی عوامل ایسے ہیں جن کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں، اور جو عوامل عدلیہ سے متعلق ہیں، ان میں پاکستان کی پاکستان کی پوزیشن نسبتاً بہتر ہے۔ مثلاً، فوجداری نظامِ انصاف میں عدلیہ کے دائرہ اختیار (فوجداری مقدمات کا تصفیہ) کو 83 واں درجہ دیا گیا ہے، جو تھائی لینڈ (87ویں)، ترکی (108ویں)، بھارت (112ویں)، سری لنکا (113ویں)، اور برازیل (133ویں) سے بہتر ہے۔ اسی طرح، دیوانی انصاف کے شعبے میں پاکستان کا درجہ 111 واں ہے، جو کہ حوصلہ افزا نہیں، تاہم یہ اب بھی مصر (117ویں)، ترکی (129ویں)، بھارت (136ویں)، اور بنگلہ دیش (139ویں) سے بہتر ہے۔ ایک اور اہم عنصر جو جانچا گیا، وہ فوجداری نظامِ انصاف پر حکومتی اثر و رسوخ تھا۔ اس حوالے سے پاکستان کا 67واں درجہ تشویشناک ہے، لیکن عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو سروے میں شامل نصف سے زیادہ ممالک اس سے بھی زیادہ سنگین مسائل کا شکار ہیں۔ مثلاً، مصر اور بنگلہ دیش دونوں 105ویں نمبر پر ہیں، جبکہ ترکی 139ویں درجے پر ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور حکومتی اختیارات پر عدلیہ کی نگرانی کا بھی جائزہ لیا گیا، جس میں پاکستان نے 83 واں درجہ حاصل کیا۔ تاہم، چونکہ یہ تاثر پر مبنی درجہ بندی 26ویں آئینی ترمیم سے قبل کی ہے، لہٰذا یہ واضح نہیں کہ ایک نیا سروے عدلیہ کی پوزیشن کو کس طرح ظاہر کرے گا۔جج کی رائے ہے کہ یہ درجہ بندی حقیقت کے بجائے محض ایک تاثر کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ یہ رپورٹ صرف لاہور، کراچی، اور اسلام آباد کے ایک ہزار افراد کے سروے پر مشتمل ہے، جو اس کی حیثیت پر سوالات اٹھاتا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسی تنظیم کے 2017ء کے سروے میں عدلیہ کو پاکستان کا ’’سب سے قابلِ اعتماد ادارہ‘‘ کہا گیا تھا۔