• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منشیات کے خلاف کریک ڈاؤن، عارضی یا مستقل؟ متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالات

کراچی( ثاقب صغیر )مصطفیٰ عامر قتل کے بعد پوش علاقوں میں منشیات کے خلاف پولیس کا کریک ڈائون کتنا عرصہ جاری رہے گا اس سوال کا جواب ابھی آنا باقی ہے تاہم پوش علاقوں میں اتنے عرصے سے منشیات کی فروخت اور نوجوان نسل کے منشیات کے مکروہ دھندے میں ملوث ہونے نے پولیس، اینٹی نارکوٹکس فورس اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ 

معروف اداکار کے بیٹے کی گرفتاری کے بعد پوش علاقوں میں منشیات کی فروخت اور نوجوان نسل کی اس لعنت میں ملوث ہونے کے حوالے سے جو خبریں آ رہی ہیں ان میں جاننے والوں کے لیے کچھ بھی نیا نہیں ہے کیونکہ برسوں سے پوش علاقوں میں منشیات کی خرید و فروخت کا دھندا اسی طرح جاری ہے۔پوش علاقوں میں رہنے والا ہر شہری اس بات سے واقف ہے کہ اگر اسے کسی بھی قسم بھی منشیات کی ضرورت ہے تو وہ اسے کیسے اور کہاں سے ملے گی۔کراچی میں منشیات بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے آتی ہے۔منشیات انٹر سٹی بسوں،ٹرکوں اور مختلف سامان لانے والی گاڑیوں کے خفیہ خانوں کے ذریعے کراچی منتقل کی جاتی ہے۔شہر میں منشیات کے عادی افراد کی حتمی تعداد کا ڈیٹا تو کسی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے تاہم ماہرین کے مطابق کراچی میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 10 سے 15 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اس میں ہر سال سات سے آٹھ ہزار افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔اس حوالے سے پولیس،اینٹی نارکوٹکس فورس اور محکمہ داخلہ کے پاس منشیات کے عادی افراد کی تعداد کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں ۔شہر کے ہر تقریباً علاقے میں منشیات کی فروخت ہو رہی ہے جن میں پوش علاقے بھی شامل ہیں۔پوش علاقوں میں آئس،کوکین ،کرسٹل جبکہ دیگر علاقوں میں چرس ،ہیروئن اور افیون کی ڈیمانڈ ہے۔منشیات کی سپلائی مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے ذریعے منشیات سہراب گوٹھ اور متصل علاقوں میں آتی ہے جبکہ بلوچستان سے منشیات حب کے راستے مواچھ گوٹھ کے راستے کراچی میں لائی جاتی ہے۔اسکے بعد ڈیمانڈ کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں منشیات فروشوں کے کارندے منشیات سپلائی کرتے ہیں۔منشیات کی ترسیل موٹر سائیکلوں ،گاڑیوں پر کی جاتی ہے۔منشیات سپلائرز کے کارندے ہر علاقے میں موجود ہوتے ہیں جو منشیات ڈیلر سے منشیات لیکر علاقوں میں فروخت کرتے ہیں۔آن لان موٹر سائیکل اور رکشہ رائیڈرز،آن لائن فوڈ ڈیلیوری بوائز کے ذریعے بھی منشیات ترسیل کی جاتی ہے ۔منشیات فروشوں نے سوشل میڈیا پر مختلف گروپس بنا رکھے ہیں خاص طور پر واٹس ایپ گروپس کے ذریعے آرڈر پر منشیات گھروں اور بتائی گئی جگہوں پر پہنچائی جاتی ہے۔

ان گروپس میں منشیات فروشوں کا ٹارگٹ نوجوان ہوتے ہیں۔کالجز اور جامعات کے باہر ہوٹل، کیفے، ٹھیلوں کے ذریعے بھی طلباء کو منشیات فروخت کی جاتی ہے ۔

ڈانس پارٹیوں،فارم ہائوسز میں ہونے والی پارٹیوں میں نوجوان نسل کو منشیات فروشوں کے کارندے منشیات فروخت کرتے ہیں ۔منشیات فروشوں نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی منشیات سپلائی کرنے کے لئیے اپنے نیٹ ورک میں شامل کر رکھا ہے۔

منشیات فروشوں کے کارندے کچرا کنڈیوں،قبرستان،ریلوے لائن کے قریب،پلوں کے نیچے ،ندی ناکوں کے قریب اور فٹ پاتھوں پر بھی نشے کا عادی افراد کو منشیات فروش منشیات کی سپلائی کرتے ہیں۔ڈرگ سپلائرز کے نیٹ ورک میں خواتین بھی شامل ہیں اور شہر کے مختلف تھانوں کی حدود سے متعدد خواتین گرفتار بھی ہو چکی ہیں۔۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے آنے والے راستوں پر متعدد چوکیوں اور پکٹس کے باوجود منشیات کراچی تک پہنچ رہی ہے جو پولیس، اینٹی نارکوٹکس فورس،کسٹم اور کوسٹ گارڈز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

کورئیر کمپنیوں کے ذریعے منشیات سپلائی کی جاتی ہے اور متعدد بار اے این ایف کی جانب سے کورئیر کمپنیوں سے بھیجے جانے والی منشیات پکڑی بھی گئی ہے تاہم اس حوالے سے کورئیر کمپنیوں کے لیے تاحال کوئی ایس او پی نہیں بنائی جا سکی ہے۔

پوش علاقوں میں قيمتی گاڑيوں ميں سوار ، نشہ کرتے لڑکے اور لڑکياں پوليس کی نظروں سے کیوں اوجھل ہیں ؟گرل فرينڈ اور بوائے فرينڈ پر جھگڑے پوش علاقوں میں روز کا معمول ہیں۔ان افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ارمغان جيسے جنونی قاتل پيدا ہو رہے ہیں۔

پولیس کو کسی واقعہ کے بعد کریک ڈائون یاد آ جاتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد حالات معمول پر آ جاتے ہیں۔اس حوالے سے تمام متعلقہ اداروں کو بیٹھ کر ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں شہر میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ منشیات کی سپلائی کے روٹس کا تعین کر کے اسے روکنے کے اقدامات کرنے اور منشیات کے دھندے میں ملوث بڑے "مگر مچھوں " کی گرفتاری بھی شامل ہے ۔

اہم خبریں سے مزید