• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: زکوٰۃ دینے کا پہلا انتخاب آپ کا رشتے دار ہے، پوچھنا چاہتا ہوں کہ رشتے دار سے مراد صرف میرے قریبی رشتے دار ہیں یا میری بیوی کے رشتے داروں کو بھی ہم زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟ مطلب یہ کہ اگر ہم تقسیم کر کے دونوں طرف دیں تو کیا یہ درست ہوگا یا میں تمام رقم صرف اپنے (شوہر) کے رشتے دار کو دوں؟

جواب: واضح رہے کہ اپنے اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع (اولاد، اور ان کی نسل یعنی پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو اور اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتے دار مثلًا بھائی، بہن، چاچا، پھوپھی، ماموں خالہ وغیرہ اور ان کی اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز ہے (بشرطیکہ وہ مستحقِ زکوٰۃ ہوں)، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے، اس لیے کہ اس میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر نسبی اور سسرالی رشتے دار اگر مستحقِ زکوٰۃ ہوں تو ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، دے سکتے ہیں۔

ملحوظ رہے کہ زکوٰۃ اس شخص کو دی جاسکتی ہے جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر رقم نہ ہو، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے، اور اسے زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اسے زکوٰۃ دینا اور اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ آپ جس طرح دونوں کے رشتے داروں میں زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرنا چاہتے ہیں ،وہ درست ہے، کرسکتے ہیں۔