• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے برگ وثمر خطوط نویسی سے اُکتا کر، عمران خان نے معروف امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ کیلئے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ یہ مضمون دراصل کس نے لکھا؟ کیسے ’’ٹائم‘‘ تک پہنچا؟ تحقیق وتفتیش کے کن مراحل سے گزر کر ’’ٹائم‘‘ اِس نتیجے پر پہنچا کہ یہ واقعی اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی تحریر ہے؟ یہ سب سوالات اہم سہی لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ مضمون عمران خان کے نام سے شائع ہوا اور انہوں نے اسے اپنے مضمون کے طور پر قبول کرلیا۔ اندھی عقیدت اور سیاسی عصبیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے، محض ایک کھرے پاکستانی کی حیثیت سے یہ مضمون پڑھا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا ایک سیاسی راہنما، زخم خوردہ ہی سہی، دنیا کے سامنے اپنے وطن کا کیا نقشہ پیش کررہا ہے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، قومی سلامتی کے اداروں اور مقتدر شخصیات کی پشت پر پیہم تازیانے برسانے اور اُنہیں اپنی حدود وقیود (Boundaries) میں رہنے کا درس دینے والے عمران خان، چاہتے کیا ہیں؟ یہ کڑوا گھونٹ اُنکے حلق میں کیوں اٹک کر رہ گیا ہے کہ اپریل 2022ء میں اُسی ایوان نے اُن پر عدمِ اعتماد کردیا جس نے اگست 2018ء میں اُنکی تاج پوشی کی تھی۔ شاید اُنکے دل میں تیرِ نیم کَش کی دَرد اَنگیز خلش کا سبب، شکستِ خواب کا یہ نوحہ ہے کہ جنرل باجوہ نے اُنکے اُس شجرِآرزو پر کلہاڑا چلا دیا، جسے جنرل فیض حمید نے، اپنے نہیں، دوسروں کے خون پسینے سے سینچا تھا۔ وہ ابھی تک انگاروں پر لوٹ رہے ہیں کہ کیوں چشم زدن میں کم وبیش دو عشروں کے اقتدارِ کُلّی کا منصوبہ، ریت کے گھروندے کی طرح بیٹھ گیا۔ تین سال گزر جانے کے بعد بھی اُنکے زخم پر موم نہیں آیا۔ آیا بھی تو انہوں نے بے ہُنر ’’ناخنِ تدبیر‘‘ سے کھرچ ڈالا۔ ’ٹائم‘ کے مضمون میں ’’بنیادی انسانی حقوق کی پامالی‘‘ اور ’’جمہوریت کُشی‘‘ کی مکروہات میں لت پت پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش میں عمران خان نے بعض بے بنیاد اور خلافِ حقیقت ’’انکشافات‘‘ بھی کئے ہیں۔ پی۔ٹی۔آئی کے راہنمائوں کو حکومت سے مذاکرات کی اجازت دینے کی داستان بیان کرتے ہوئے وہ اپنی فراخ قلبی کا تذکرہ کرتے اور بتاتے ہیں کہ جواب میں اُنہیں اڈیالہ جیل سے نکال کر ہائوس اریسٹ کی پیشکش کی گئی جو اُنہوں نے مسترد کردی۔ یہ سراسر بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔ مذاکراتی عمل کے دوران کسی مرحلے پر، حکومتی کمیٹی نے، پیشکش تو کیا، اِس نوع کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔ اِس رعایت اور خان صاحب کے ’’مردانہ وار‘‘ اِنکار کی کہانی، مذاکراتی عمل کے آغاز سے بہت پہلے بیان کی جارہی تھی۔ کوئی نہیں بتارہا کہ یہ پیشکش کب ہوئی؟ کس نے کی؟ کس ذریعے سے اڈیالہ جیل پہنچی؟ اور خان صاحب کی طرزِ انکار کیا تھی؟ پاک فوج کو کٹہرے میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’دنیا کو پاکستان کی صورتِ حال پر توجہ دینی چاہئے جہاں، جمہوریت سے انحراف کے باعث، بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں، ایک بار پھر دہشت گردی نے سر اُٹھا لیا ہے۔ یہ سب کچھ محض اتفاقیہ نہیں۔ اسکا سبب یہ ہے کہ

’’ملکی سلامتی کو درپیش اِس سنجیدہ خطرے (دہشت گردی کا خاتمہ) پر توجہ دینے کے بجائے پاکستانی فوج کے وسائل، سیاسی مخالفین، جیسے پی۔ٹی۔آئی، سے انتقام لینے کی مہم میں جھونک دئیے گئے ہیں‘‘ دوسروں کو اپنی حدود وقیود کا احساس دلانے کی ناصحانہ خصلت سے کام لیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات اہم ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف، سید عاصم منیر، اس امر کو تسلیم کریں اور اسکا احترام کریں کہ فوج اپنی آئینی حدود میں رہے‘‘۔پاکستان کو مالی مشکلات کی دلدل میں دھکیلنا، اُسے دیوالیہ پن کے گڑھے میں پھینکنا اور شدید نوعیت کے سنگلاخ اقتصادی بحران میں مبتلا کرکے اپنے سیاسی مفادات کی جُوئے شِیر بہا لانے کی کوشش کرنا اُنکی سیاسی حکمتِ عملی کا اہم جزو رہا ہے۔ اقتدار سے محروم ہوتے ہی انہوں نے شوکت ترین کے ذریعے خیبرپختون خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو آئی۔ایم۔ایف ڈیل سبوتاژ کرنے پر اُکسایا۔ فروری 2024ء میں بہ نفسِ نفیس آئی۔ایم۔ایف کی ڈائریکٹر جنرل کرسٹالینا جارجیوا کو خط لکھا کہ امداد، انتخابات کے آڈٹ سے مشروط کردی جائے۔ مارچ 2024ء میں قیادت کے حکم پر پی۔ٹی۔آئی کے کارکنوں نے واشنگٹن میں آئی۔ایم۔ایف ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرہ کرکے، عالمی ادارے پر پاکستان کی امداد بند کرنے کیلئے دبائو ڈالا ۔ ’’ٹائم‘‘ کے تازہ مضمون میں بھی انہوں نے فن کارانہ انداز میں توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کی روشنی میں یورپی یونین، پاکستانی برآمدات کے ترجیحی محصولات کی رعایت واپس لے سکتی ہے۔ مزید کہا کہ ’’علاقائی اور عالمی سلامتی کے حوالے سے اہم مقام رکھنے والا پاکستان، ایک خطرناک نظیر بنتا جا رہا ہے۔ یہ صورتِ حال اُن سب کیلئے باعثِ تشویش ہونی چاہیے جو جائز حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ پاکستان کو ہر زاویے سے مطعون کرنے اور اُسکے چہرے کے ایک ایک مسام میں کالک بھرنے کے بعد، اُنکا قلم یکایک جُوئےنغمہ خواں بن جاتا ہے۔ وہ نومنتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ پر دادوتحسین کے فراخ دلانہ ڈونگرے برساتے ہوئے لکھتے ہیں ’’میں جنوری میں حلف اٹھانے والے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کو دِل کی گہرائیوں سے مبارک پیش کرتا ہوں۔ وائٹ ہائوس میں اُنکی شاندار واپسی، امریکی عوام کے عزم وارادہ کا ثبوت ہے۔ اب جبکہ وہ دوبارہ منصبِ صدارت پر فائز ہوئے ہیں، ہمیں توقع ہے کہ اُنکی انتظامیہ، جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرے گی۔ خاص طورپر اُن ممالک کے حوالے سے جہاں اِن اصولوں کو آمرانہ حکومتوں سے خطرات درپیش ہیں۔‘‘

’’حقیقی آزادی‘‘ اور ’’غلامی نامنظور‘‘ جیسے جنوں خیز نعروں کو طاق پر رکھتے ہوئے اُنہوں نے ’سائفر‘ والے امریکہ کے حضور، بصدعجزونیا عرضی گزار دی ہے۔ دیکھئے اِس پر کیا گزرتی ہے۔

اپریل 2022ء سے ’ماہیِٔ بے آب‘ کی کیفیت میں مبتلا عمران خان،بلاشبہ آج کل، بے مہر موسموں کی زد میں ہیں لیکن کون سا سیاستدان ہے جو اِن موسموں کے قہر کا نشانہ نہیں بنا؟ کسی کے نامۂِ اعمال میں نہ کوئی 9مئی ہے نہ 26نومبر، نہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل خطوط نہ عالمی جریدوں میں لکھے جانیوالے ’’دُشنام نامے‘‘۔ عمران خان اقتدار میں تھے تو بھی، سیاسی، اخلاقی، تہذیبی، جمہوری اور پارلیمانی، حدود وقیود کو پائوں کی ٹھوکر میں رکھا۔ اقتدار سے نکلے تو بھی یہی چلن رہا۔ نامہ ہائے بے ننگ ونام اور مضمون ہائے الزام واتہام کی جانکاہ مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر ’’قید تنہائی‘‘ کے کسی دلگداز لمحے میں کنج قفس میں سربہ زانو بیٹھ کر، وہ اِس سادہ ومعصوم سوال کا جواب ضرور تلاش کریں کہ اگر پاکستان کے ہر ادارے اور ہر فرد کیلئے کچھ حدود وقیود (Boundaries) ہیں تو کیا خود خان صاحب کیلئے بھی کوئی حدود (Boundaries) ہیں یا نہیں؟ کیا وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، ہر حد، ہر قید، ہر قدغن سے مبرّا ہیں؟

تازہ ترین