طویل اور سخت بیماری سے لڑتے لڑتے آخرکار سب کی دعائوں سے امی شفا یاب ہو کر گھر واپس آ گئی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ 3 مہینے ہماری زندگی میں تھے ہی نہیں اس لئے کہ ہم چاروں بہن بھائی اپنے شفیق سائبان آغا جان کے بعد شدید پریشانی اور اضطراب کا شکار تھے اور دنیا کی ہنگامہ آرائی پوری رفتار کے ساتھ رواں دواں تھی مگر ہم سب اپنی ماں کے ایک کمرے میں دنیا و مافیہا سے بے خبر اسی کشمکش میں تھے کہ ہمارا رب ہماری ماں کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔
ابھی ایک سال ہی تو ہوا ہے میری بہادر ماں نے میرے آغا جان کی جدائی کا پہاڑ جیسا غم بڑے وقار اور صبر کے ساتھ جھیلا ہے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرتی رہی ہیں۔ وہ امی کے بڑے قدر دان تھے کہ امی نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دین کی خدمت کے لئے ہمیشہ بڑی صابرانہ رفاقت میں زندگی گزاری۔
زیب آپا جو محترم گوہر ایوب صاحب کی اہلیہ اور عمر ایوب بھائی کی والدہ ہیں، کتنی محفلوں میں یہ واقعہ بیان کر چکی ہیں کہ میں قاضی صاحب کا بڑا احترام کرتی تھی، مگر اس دن سے تو میں ان کی زیادہ عزت کرنے لگ گئی جب میں نے جہاز کے لئے انتظار کرتے ہوئے ایک دفعہ لائونج میں انہیں تمہاری امی کی قدر دانی کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا کہ آپا میری امی تھی ہی ایسی، انہیں اتنا قدر دان ہونا ہی چاہئے تھا۔ میری امی حقوق نسواں کی بڑی علمبردار مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی ایسی وفا شعار کہ ان کی سہیلیاں انہیں میرے آغا جان کی پجارن کہتی تھیں۔ انہوں نے آغا جان کی کمی کو حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور میں جب امی کی گود میں سر رکھ کر ان سے اپنی کوئی تکلیف بیان کرتی تھی تو پیچھے آغا جان کی پیاری آواز ابھرتی تھی کہ !
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
کہ ماں کی گود میں آ جائو کہ تمہاری تیمار داری ہو سکے
واقعی اللہ رب العالمین نے اپنی ساری رحمت ماں کے وجود میں سمیٹ دی ہے، جہاں سے ہمیشہ سکون ہی میسر آتا ہے۔ ہمارے اوپر تو امی کی خدمت فرض تھی مگر ہمارے بہنوئی ڈاکٹر عدنان نے جس محبت سے امی کی خدمت کی وہ ہمارے خاندانی نظام اور معاشرے کے استحکام کے لئے ایک روشن مثال ہے اور اس کی تفصیلات میں کسی اور کالم میں تحریر کروں گی تاکہ معاشرے میں بزرگوں کی خدمت و محبت کی خوشبو کا یہ سفر جاری اور مہکتا رہے۔ ہم اپنی ماں کی خدمت میں مصروف تھے اور دھرتی ماں میں ایک اور سانحے نے جنم لیا۔ اگرچہ آغا جان نے ہمیشہ ہمیں یہ تلقین کی۔
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
مگر وہ مسلمانان ہند کا یہ نعرہ بھی ہمیشہ لگاتے رہے کہ!
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ، اس سانحے میں وہ مجھے بہت یاد آئے کیونکہ وہ Conflict Resolution کے ماہر تھے۔ وہ ساری عمر بہت ہی مختلف الخیال لوگوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے کی کوشش میں مصروف رہے اور اب بھی جب حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا تو مجھے بہت یاد آئے۔ میری امی اسپتال کے بیڈ پر دن رات دعائوں میں مصروف رہیں۔ حامد مجھے ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح لگا۔ اس نے بھی مجھے ہمیشہ عزت سے نوازا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ان کے والد اور جماعت میں بہت اختلافات تھے مگر ہم نے اختلافات کی اس خلیج کو عزت اور محبت سے پاٹ دیا۔ میں نے آغا جان سے کہا کہ ہمارے بارے میں میڈیا کے لوگوں میں انفارمیشن کم اور ڈس انفارمیشن زیادہ ہے۔ اس میں کچھ تو ان لوگوں کا قصور ہو گا مگر میں زیادہ قصور وار اپنے آپ کو ٹھہراتی ہوں کہ ہم نے کبھی عزت و محبت کے ساتھ اپنی دعوت کو اس طرح نہیں پیش کیا جیسے اس کا حق تھا۔ میں ہمیشہ حامد اور انہی جیسے میڈیا کے بہن بھائیوں کی مثال دیتی رہی کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے ان میں سے کسی کو فون کیا ہو اور کسی نے اس کا جواب نہ دیا ہو۔
حامد کی ہمیشہ قدر دان رہی اور 8اکتوبر 2005ء کے زلزلہ اور نوشہرہ کے سیلاب میں ڈوب جانے کی واقعت کی میں چشم دید گواہ ہوں اور کبھی بھی اس کی فرض شناسی نہیں بھلا سکتی جب میں نے اس کو تہجد کے وقت کال کی اور اس نے اس پر فوراً متعلقہ افراد کو مدد کے لئے روانہ کیا۔ اس کی اہلیہ ناہید میری چھوٹی بہنوں کی طرح ہے اور اس کے لئے ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر، اس کے بچوں پر حامد بھائی کا سایہ سلامت رکھے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں قرار واقعی سزا دلوائی جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس حملے کے بعد پاک فوج کو جس انداز سے نشانہ بنایا گیا بطور ایک پاکستان یہ کسی طرح سے بھی جنگ اور جیو جیسے اداروں کے شایان شان نہ تھا۔ میں جنگ اور جیو سے ملتمس ہوں کہ خود احتسابی کے نظام کے تحت اس کی تفتیش کریں کہ یہ کیوں ہوا اور کس نے کیا کہ آئندہ ایسے حساس موضوعات کو پوری ذمہ داری اور قومی سلامتی کے جذبے کے ساتھ چھیڑا جا سکے۔
پاک فوج ہماری جغرافیائی سرحدوں کی نگہبان اور میڈیا ہماری نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے۔ دونوں اداروں سے اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو چوراہے پر اپنی ہنڈیا نہیں پھوڑنی چاہئے تھی۔ ہم اپنے دشمن کو پھر کیوں دوش دیں گے کہ ہم تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے لئے کافی ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اکیلا اپنی قوم کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ مجھے احمدی نژاد کی ایک تقریر کا اقتباس ہمیشہ یاد رہے گا جب ہم ایک کانفرنس میں شریک تھے اور امریکہ کے تیور کچھ صحیح معلوم نہیں ہو رہے تھے تو وہ بڑے اعتماد سے کہہ رہے تھے کہ کوئی بھی استعماری طاقت ہمیں ٹیڑھی نگاہوں سے نہیں دیکھ سکتی کیونکہ ہم اصحاب حکومت، ہماری فوج اور ہمارے عوام ایک ہی قطار میں اپنے ملک کی حفاظت کے لئے صف آراء ہیں۔
میں بھی دجل کے اس دور میں جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کے مطابق آخری دور میں دجل یعنی فریب اور دھوکہ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہو گا جو صورت حال نظر آ رہی ہو گی وہ حقیقت پر مبنی نہ ہو گی اور جو حقیقت ہو گی وہ اتنی الجھی ہوئی اور پردوں میں لپٹی ہو گی کہ کسی کو کچھ نہ سمجھ آ رہی ہو گی۔
ہمیں بھی اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا محافظ بنتے ہوئے ایک ہی قطار میں صف آراء ہونا چاہئے۔ جمہوریت کی اس جیسی تیسی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لئے اپنی قوت کو مثبت رخ دینا چاہئے۔ دشمن کی چالوں اور دجل اور فریب کو سمجھتے ہوئے احتیاط اور ذمہ داری سے کام لینا چاہئے کہ منزلیں حوصلوں سے ملتی ہیں اور دھرتی ماں کی اس پاک سرزمین کو اللہ کا ایک خوبصورت انعام سمجھ کر اس کی حفاظت کے لئے متحد ہو کر صف آرا ہوں تاکہ ہم اقوام عالم میں ممتاز مقام حاصل کر سکیں۔