• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا کے خوبصورت ملکوں میں ’’نمبر ون‘‘

پاکستان میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی طلب میں دنیا بھر سے ٹورسٹ آتے ہیں یہاں کے صحراء، پہاڑ، دریا ،قدیم عمارات، قلعے، مساجد جتنے دیکھےجائیں کم ہیں۔

متنوع موسم ایسا کہ ایک طرف سبی میں لُو چل رہی ہے اور دو چار گھنٹے کے فاصلے پر زیارت میں برف باری ہورہی ہے۔ کراچی میں موسم گرما ہے تو اسی وقت دیو سائی میں یخ بستہ ہواؤں کا راج ہے۔ زبانیں اور ثقافتیں ایسی کہ دنیا بھر سے آنے والوں کا دل موہ لے۔

ٹریول گائیڈ لونلی پلیٹ نے پاکستان کو ایک اہم سیاحتی خطہ قرار دیا ہے اب ماضی کی طرح پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی غیر ملکی سیاحوں  کی بڑی تعداد دکھائی دینے لگی ہے اس کے ساتھ ساتھ اسکردو ہوائی سروس شروع ہونے کے بعد سیاحوں کی یلغار ہوگئی ہے۔ اور مہنگے ٹکٹ ہونے کے باوجود سیٹ کا حصول مشکل تر بنتا جا رہا ہے۔

سیاحوں کی بڑی تعداد کا رخ شمالی علاقوں کی طرف ہوتا ہے، گلگِت ،ہنزہ اور اسکردو، کی وادیاں جن کی رسائی اب سڑکیں بن جانے سے آسان تر ہوگئی ہیں، ہر موسم میں وہاں  پہنچا جا سکتا، ناران اور اس کے گردو نواح میں جس قدر خوبصورتی پھیلی ہے وہ لفظوں کی محتاج نہیں ناران سے بابوسرٹاپ پاکستان کی سب سے خوبصورت سڑک کہی جاسکتی ہے جس پر ندیاں، جنگل، گلیشیئر اور سیکڑوں آبشار گرتے دکھائی دیتے ہیں بابوسر کی تیرہ ہزار فٹ بلند اونچائی پر اگست میں بھی غیر موتق برف باری ہوسکتی ہے باقی سال کے پانچ چھ ماہ یہ راستہ بند رہتا ہے اور شمالی علاقوں میں جانے والے سیاح شاہراہ قراقرم کا متبادل راستہ اختیار کرتے ہیں اس راستے میں  بٹہ کنڈی لالہ زار گیتی داس۔ لال و زمرد، جیسی وادیاں نگاہوں کو خیرہ کرتی ہیں اسی طرح یہاں سے ایک اور راستہ نوری ٹاپ کے ذریعے کشمیر سے منسلک ہے اور ناراں سے کشمیر کی دادی نیلم تک جیب سے با آسانی پنہچا جاسکتا ہے۔

پاکستان مذہبی سیاحت کے حوالے سے بھی مالا مال ہے۔ سکھوں ہندوؤں اور بدھسٹ کے متبرک مقامات کی ایک لمبی فہرست ہے اس حوالے سے ایک سیاحتی ادارے کے سربراہ فضل مجید نے ہمیں بتایا پاکستان میں قدیم اور تاریخی مساجد کے ساتھ ساتھ مندر خانقاہیں  اور اسٹوپا ہیں جو کہیں  تو صحیح حالت میں ہیں اور کہیں  کھنڈر ہوچکے ہیں دنیا بھر سے لوگ ہم سے رابطہ کرتے ہیں  کہ منیلا، شاردہ، ننکانہ اور تھر کے ان علاقوں کی طرف بھیج دیں جہاں جین مندر بھی آج تک قائم ہیں۔

اسی طرح موہن جوڈارو، ہڑپہ کی گم گشتہ تہذیبوں کے آثار دیکھنے کے لیے لوگ آتے ہیں میں تو یہی کہوں گا پاکستان میں ٹورازم کی صنعت میں وسیع مواقع ہیں حکومت اگر عزم کرلے تو پاکستان ایک مضبوط ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے اس کے لیے بہت سے اقدامات کرنے ہوں گے خاص طور پر یہاں  آنے والے غیر ملکی سیاحوں کو سہولت دینا ان کا خیال رکھنا ہوگا انہیں خصوصی طور پر سیکیوریٹی بھی دینا چاہئے اسی طرح ٹراینورٹر اور ہوٹلنگ سے وابستہ افراد کو بھی ان کی من مانیوں سے روکنا ہوگا ۔پاکستان ٹورازم ڈیولیپمنٹ کارپوریشن کو بھی اور مضبوط کرنا ہوگا تاکہ یہ لوگ واپس جاکر پاکستان کا بہتر امیج بتا سکیں۔

پاکستان میں مغلیہ اور برطانوی راج کی عمارات بھی سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں قلعے، مسجدیں، حویلیاں پنڈی، پشاور، لاہور اور کراچی میں آج تک قائم ہیں سندھ میں رنی کوٹ، کوٹ دیجی، مکلی، چوکندی کے قبرستان اور مٹکارپور حیدرآباد کی حویلیاں دیکھ کر سیاح  دنگ رہ جاتے ہیں یہاں کے میوزم میں قدیم مخطوطات، سکے ، مورتیاں، زیورات عظیم رہنماؤں کے ہاتھ سے لکھی ہوئی دستاویزات دیکھنے کے لئے سیاحوں کی قطاریں لگتی ہیں۔ اسی طرح خوراک کے معاملے میں آپ موسم سرما میں  خصوصی طور پر لاہور کی فوڈ اسٹریٹ جائیں تو پاکستان بھر سے لوگ اچھے کھانوں کی تلاش میں آتے ہیں۔ پائے، کھٹاکھٹ، نہاری، تکےکباب، دیسی مرغ کی دکانوں میں کھونے سے کھوا چھلتاہے۔

قریب اور آسان راستوں کے خواہش مند مری، نتھیاگلی، بھوربن مالم جبہ، جیسی گلیوں پر با آسانی پہنچ جاتے ہیں۔ مالم جبہ میں موسم سرما کی برف باری شروع ہوتے ہی اسکینگ کے مقابلے شروع ہوجاتے ہیں اور لوگ اس میں  دلچسپی سے حصہ لیتے ہیں ایوبیہ اور نیومری میں چیئر لفٹ سارا سال کھلی ہوتی ہیں، بھاری برف باری میں روڈ صاف کرنے والی مشینیں تیار رہتی ہیں۔ جنگلی حیات کے شوقین افراد کے لئے ایوبیہ نیشنل پارک لال سہانرا کالا چٹا میں ان کے ذوق کے مطابق ماحول ملتا ہے۔ 

ہنزہ کے کریم آباد۔ میں ایک گیسٹ ہاؤس کے مالک اختر امین کا کہنا ہے شمالی علاقوں میں سیاحت کے حوالے سے سیکڑوں ایسی جگہیں ہیں جہاں پہنچ کر ایک خواب کا گمان ہوتا ہے۔ یہاں کے پہاڑ، جھیلیں، گلیشیئر، پرانے کھنڈرات، پھلوں کے باغات اور خصوصی طور پر انتہائی تعلیم یافتہ لوگ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا پرجوش استقبال کرتے ہیں شاہراہ قراقرم جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہتے ہیں اس سڑک پر قدم قدم پر یادگاریں قائم ہیں ؟؟ شگر کے پرانے قلعے غیر ملکیوں کے لیے حیرت کا باعث ہیں اس سال جو جولائی میں  لاکھوں  سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا ایک ٹور آپریٹر حسن نیازی نے بتایا کہ اس سال کراچی سے گورکھ پل جسے سندھ کا مری کہا جاتا ہے۔ 

ہزاروں لوگوں نے دیکھا یہ کوہ کیر تھر میں تقریباً چھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور گرم موسم میں بھی یہاں ٹھنڈی اور تیز ہواؤں کے جھکڑ چلتے ہیں لوگ ایک یا دو روز کے لئے اپنا پلان بناکر آتے ہیں اور یہاں کا پرفضا ماحول مقناطیس کی طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اب موسم سرما ہے تو وہاں درجہ حرارت صفر تک پہنچ جاتا ہے۔ سرد موسم میں سیاح اندرونِ سندھ کا رخ بھی کرتے ہیں خاص طور پر سکھر کے سادھوبیلہ، ست سہیلیوں کے مزار، ڈاؤن برج اور سکھر بیراج کی سیاحت میں خوش رہتے ہیں۔ 

اسی طرح اس سال صحرائے تھر کے شہر مٹھی میں گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں اور برسات میں وہاں کے رنگین ماحول سے آنے والے مہمانوں کو مسحور کردیا۔ نومبر، دسمبر میں بیشتر لوگ ٹھٹھہ کے پاس پلیچی جھیل کا رخ کرتے ہیں جو ایشیامیں پرندوں کی سب سے محٖفوظ پناہ گاہ ہے اور سائبریا سے آنے والے مہمان پرندوں کے اترنے کا دلکش منظر مبہوب کردیتا ہے۔

بلوچستان کے رنگ بدلتے موسم سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ رکھتے ہیں ہنگلاج نیشنل پارک، کنڈملیر، امید کی شہزادی اور اب سرد موسم میں زیارت کی برف باری دیکھنے بھی سینکڑوں سیاح جاتے ہیں، پاکستان میں سیاحت، عالمی توجہ حاصل کر رہی ہے۔ سی این ٹربولر کی رپورٹ ہے کہ سیاحتی مقامات کے حوالے سے پاکستان سرفہرست ہے اگر ویزے کی پابندیوں میں نرمی کی جائے تو پاکستان سیاحت کے اعتبار سے ایک مثالی ملک بن سکتا ہے۔

رواں سال کتنے سیاح آئے

ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال لولاکھ سیاحوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں کا وزٹ کیا خاص طورپر گلگت بلتستان میں ملکی سیاحوں کے ساتھ پندرہ ہزار سے زائد غیر ملکی بھی تھے اس سال 2024 میں بھی ان کی آمد جاری رہے توقع ہے کہ دسمبر تک ان سیاحوں کی تعداد دس سے پندرہ لاکھ کے قریب ہوجائے گی مقامی معیشت میں بھپری آنے پر گلگِت بلتستان کے لوگ خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔