دنیا بھر میں سیّاحت کا شمار بلین ڈالرز انڈسٹری میں ہوتا ہے جس نے اکثر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیپال سمیت بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کا مکمل دارومدار سیّاحت کی صنعت پر ہے۔ عالمی سطح پر سیاحت کی صنعت کے حجم اوراس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر برس مختلف ممالک صرف اس صنعت سے اربوں ڈالرزکمالیتے ہیں۔
جی ہاں ،اربوں ڈالرز۔لیکن کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ سیّاحوں کی آمد اورسیّاحت سے آمدن کے ضمن میں یورپ تو ایک طرف،ہم جنوبی ایشیا میں بھی کسی خاص مقام کے حامل نہیں ہیں۔حالاں کہ سیّاحت کے لیے پُرکشش مقامات کےضمن میں پاکستان جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا کے بھی بہت سے ممالک پر برتری رکھتا ہے۔لیکن ماضی کی حکومتوں نے کبھی اس سے فائدہ اٹھانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ۔ اس صنعت کے فروغ میں عدم دل چسپی اور جارحانہ مارکیٹنگ کے ذریعے دنیا کو پاکستان کے زبردست سیّاحتی مقامات سے آگاہ نہ کرنے کی وجہ سے ہم اُن اربوں ڈالرز سے محروم ہیں جو ہمیں اس اہم صنعت سے حاصل ہوسکتے تھے۔
پاکستان1970کی دہائی ميں سیّاحت کے لیے مشہور ومعروف ملک تھا۔ اس وقت کئی مغربی ممالک کے سیّاح پاکستان آتےتھےجو وادیِ سوات اورکشميرسے ہوتے ہوئے نيپال اور بھارت جایا کرتے تھے۔ تاہم بعدازاں ملک ميں عدم استحکام اوردہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے یہ صنعت بُری طرح متاثر ہوئی۔لیکن اب ایک بار پھر پاکستان میں سیّاحت کے حوالے سے کچھ عرصے سے مثبت خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
یورپی ملک پرتگال سیّاحت کے لیے پاکستان کو محفوظ ملک قرار دے چکا ہے۔ اسی طرح فرانس نے بھی پاکستان کے حوالےسےسفری ہدایات ميںنرمی پیداکی ہے۔ 2018 کے اواخر میںعالمی شہرت یافتہ جریدے فوربز میگزین نے عالمی سیّاحوں کو پاکستان جانے کی تجویز دی تھی۔ فوربز میگزین نے لکھا تھاکہ سیّاحوں کو چاہیے کہ وہ قراقرم ہائی وے کے ذریعے ہنزہ، شگرال اور خپلو کا دورہ کریں۔ یہ مقامات پاکستانی علاقے گلگت،بلتستان میں واقع ہیں، جو دنیا بھر کے سیّاحوں میں مقبول ہیں۔
سیّاحت کے ضمن میں2019 کا آغازاچھی خبر سے ہوا۔ پہلے ہی مہینے کی چھبّیس تاریخ کو اسلام آباد میں سیّاحت کے صوبائی وزراء کا اجلاس ہواجس کی صدارت کرتے ہوئے بین الصوبائی رابطے کی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ سیّاحت کی صنعت دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی صنعت ہے جس سے کسی ملک کی مجموعی ملکی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان بیرونِ ملک پاکستان کا تشخص بہتر بنانے اور سیاحت کے فروغ میں گہری دل چسپی لے رہے ہیں۔اجلاس میں ملک میں سیّاحت کے فروغ، خصوصا ً ترکی کے ساتھ تعاون بڑھانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیاگیا ۔
اسی روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے امریکا اور یورپ سمیت نوّے ممالک کے شہریوں کے لیے ویزے کی شرائط میں نرمی کرنے کا عندیہ دیا۔ فہمیدہ مرزاکا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں آنے والے سیّاحوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرے گی۔175ممالک کے شہری الیکٹرانک طریقے سے آن لائن ویزے حاصل کرنے کے اہل ہوں گے اور 50 ممالک کے شہری کسی بھی پاکستانی سفارت خانے میں درخواست دیے بغیر پاکستان کے کسی بھی ایئر پورٹ پر پہنچنےکے بعد ویزا حاصل کر سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک کی فہرست ميں امریکا بھی شامل ہے۔
مارچ کی چھبّیس تاریخ کو وفاقی کابینہ نے ملک میں سیّاحت اور ہوابازی کی صنعت کے فروغ کے لیے شہری ہوابازی کی نئی پالیسی کی منظوری دی۔اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اس وقت کے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہاتھا کہ پاکستان کے سیّاحتی مقامات تک سفر کے اخراجات میں کمی اور سہولتیں بڑھا کر سیّاحوں کی حوصلہ افزائی کی جائےگی۔سیّاحت کے فروغ کےلیے سفر کے اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں چار ارب روپے کی چھوٹ دی جائے گی اورمقامی پروازوں کے ذریعے فضائی سفر پر کوئی ٹیکس عاید نہیں ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے ملک میں سیّاحتی مقامات کے لیے ہیلی کاپٹر اور چالیس نشستوں والے طیّاروں پر مشتمل سروس شروع کرنے پر بھی غور کیا اور اب غیرملکیوں کو ملک میں کہیں بھی آنے جانے کے لیے این او سی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ سیّاحت کے فروغ کے لیے وزیراعظم کے ویژن کے تحت ویزاپالیسی میں پہلے ہی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اب پانچ ملکوں، چین، متحدہ عرب امارات، ترکی، ملائیشیا اور برطانیہ کے لیے ای ویزے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے ۔ اٹھاون ملکوں کے شہری اپنی آمدپر ویزا حاصل کر سکتےہیں اور ایک سوستّر دیگر ملکوں کے شہریوں کو ای ویزے کی سہولت فراہم کی جائےگی۔
گزرے ہوئے اپریل کے مہینے میں بھی سیّاحت کے فروغ کے لیے کچھ ہوتا نظر آیا،یعنی پہلی پاکستان ٹورازم سمٹ کا انعقاد ہوا۔ چار اپریل کو اس سمٹ کی اختتامی تقریب وزیر اعظم کے دفتر میں منعقد ہوئی۔اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان ، عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان سیّاحت او قدرتی خوب صورتی کے لحاظ سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ پاکستان کے دروازے سیّاحوں کے لیے کھلے ہیں ، ویزے میں آسانی سمیت ان کے لیے ہر ممکن سہولتیں یقینی بنا رہے ہیں،سیّاحت کے شعبے کے فروغ میں سوشل میڈیا اہم کردار کا حامل ہے۔
پاکستان میں ماونٹین ٹورازم، بیچ ٹورازم، ڈیزرٹ ٹورازم، مذہبی سیّاحت کا جو امتزاج ہے وہ دنیا میں کہیں یک جا نہیں ملے گا۔ ہم نے پاکستان کا ویزےکا نظام تبدیل کر دیااور غیر ملکی سیّاحوں کے لیے این او سی کی شرط ختم کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور ٹورازم ٹاسک فورس سیّاحوں کو سہولیتیں فراہم کرے گی۔باقی کام نجی شعبے کو کرنا ہے۔پاکستان میںسیّاحت کے شعبے میںملک کے نجی شعبے کے علاوہ ملائیشیا اور دیگر ممالک بھی دل چسپی لے رہے ہیں۔
جولائی کے مہینے میں یہ خبر آئی کہ چین کی سیچوان یونیورسٹی پاکستان میںسیّاحت کےفروغ کےلیے کانفر نس کا انعقاد کرے گی۔ستمبر کے آخری ایّام میں گیلپ پاکستان کی جانب سے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں پانچ برسوں میںآنے والے سیّاحوں کی تعداد میں 315 فی صد کا اضافہ ہوا ہے جس میں پنجاب میں سب سے زیادہ،یعنی 95 فی صد سیّاحوں کی آمد ہوئی۔ گیلپ پاکستان کی جانب سے ’’ پاکستان میں ثقافتی ورثے اور عجائب گھروں کے دورے‘‘ کے عنوان سے پیش کردہ رپورٹ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیاہے کہ سیّاحت ملک کی معیشت کی بہتری میں ایک ممکنہ گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سیّاحتی اور ثقافتی مقامات پر سیّاحوں کی آمد میں 2014سے اضافہ ہوا اور16لاکھ سے 317فی صد بڑھ کر یہ تعداد2018میں66لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اس میں سب سے زیادہ،یعنی 95 فی صد سیّاح ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آئے۔ان ہی برسوں میں خیبرپختون خوا اور سندھ میں سیّاحوں کی تعداد بڑھتی اور گھٹتی رہی۔اسی طرح عجائب گھروں کا دورہ کرنے والے سیّاحوں کی تعداد میں تقریباً50فی صد اضافہ ہوا اور2014میں17لاکھ افرادسےبڑھ کر 2018 میں یہ27لاکھ ہوگئی۔
پاکستان میں ثقافتی مقامات او عجائب گھروں میں غیر ملکی سیّاحوں کی آمد میں بھی دگنےسے زاید اضافہ ہوا۔رپورٹ کے مطابق پانچ برسوں میں میوزیم آنے والے سیّاحوں کی تعداد میں 130فی صداور غیر ملکی سیّاحوں کے دوروں میں سو فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔غیر ملکی سیّاحوں کی تعداد میں یہ اضافہ چاروں صوبوں میں دیکھا گیا۔ تاہم خیبر پختون خوا اس حوالے سے سرِ فہرست رہا جہاں 2018 میں عجائب گھروں کے دوروں میں 250 فی صد اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق لاہور کا شاہی قلعہ سیّاحوں میں سب سے مقبول ثقافتی مقام رہا جس کے بعد 2016 اور 2018 میں شالیمار گارڈن سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا مقام تھا۔2017میں سیّاحوں نے سب سے زیادہ شیخوپورہ کے ہرن مینار کی سیر کی۔دوسری جانب غیر ملکی سیّاحوں میں 2016 اور 2017میں لاہور میوزیم سب سے زیادہ مقبول رہا۔تاہم2018میں ٹیکسلا میوزیم وہ مقام تھا جہاں سب سے زیادہ سیّاح سیر کے لیے گئے۔
ستمبر ہی میں ایک اور اچھی خبر آئی کہ وزیر اعظم نے نےسیّاحت کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس قائم کر دی ہے۔انتیس ستمبر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت سیّاحت کے فروغ کےلیےایک اجلاس ہواتھاجس میں اس شعبے کے فروغ کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس ٹاسک فورس میں تمام صوبوں،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے نمائندے شامل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیاتھا۔اجلاس میں وزیر اعظم نےہدایت کی تھی کہ تمام صوبے اپنے اپنےسیّاحتی مقامات کی نشان دہی کریں۔
اکتوبر کے مہینے میں بھی سیّاحت کے فروغ کے ضمن میں ایک اچھی خبر آئی۔اس ماہ کی نو تاریخ کو انقرہ میں وفاقی وزیر تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت و قومی ورثہ، شفقت محمود نے ترکی کے نائب وزیر ثقافت و سیّاحت ڈاکٹرکیم سے ملاقات کی۔اس موقعے پر پاکستان اور ترکی کے مابین اسلام آباد میں سیّاحت اور مہمان نوازی کے شعبے میں سینٹر آف ایکسی لینس قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
ملاقات کے دوران دونوں وزراءنے تعلیم، فنّی تربیت، ثقافت اور سیّاحت کے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے مزید مواقعے تلاش کرنے پر بھی تفصیلی بات چیت کی۔شفقت محمود نے کہا کہ پاکستان اسلام آباد میں نیشنل ہنر یونیورسٹی قائم کر رہا ہے اور مجوّزہ سینٹر آف ایکسی لینس ان ہاسپیٹیلٹی اینڈ ٹورازم مینجمنٹ اس کے کیمپس کے طور پر اس کا حصہ ہوگا۔
ستمبرکے مہینے میں ایک معروف روسی سیّاح، پر یخو د کو اولیگ پاکستان پہنچا تھا۔ایک ماہ تک پاکستان میں قیام کے دوران شمالی علاقہ جات کی سیّاحت کے بعد بیس اکتوبر کو کراچی میں اپنے سفر کا اختتام کرنے والے اس سیّاح نے،جو اب تک چالیس ممالک کا سفر کرچکا ہے ، پاکستان کو بہترین ملک قرار دیتے ہوئےیہاں کے عوام کی تعریفوںکےپل باندھ دیے۔اس کا کہنا تھاکہ پاکستانی عوام بہت مہمان نواز ہیں اور یہاں کا سفر محفوظ ہونے کے ساتھ کم خرچ بھی ہے۔
پریخودکو اولیگ چین سے بہ راستہ خنجراب پاس پاکستان پہنچا اور وہاں سے شمالی علاقہ جات، ہنزہ، چترال، گلگت اوروادی کیلاش کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہوااسلام آباد پہنچا جہاں سے بہ ذریعہ ریل کراچی تک کا سفر کیا۔واضح رہے کہ یہ سیّاح جن ممالک کی سیّاحت کرتا ہے وہاں کی عکس بندی کرکے اسے اپنے یو ٹیوب چینل پر پیش کرتا ہےجس کے مستقل سبسکرائبرز کی تعداد ایک لاکھ سے زاید ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات دنیا کے حسین ترین مقامات میں شامل ہیں۔یہاں کی ثقافت بہت رنگا رنگ اور دل چسپ ہے۔
پریخود کا کہنا تھا کہ کراچی میں قیام کے دوران اسے کسی بھی وقت عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوا۔ حقیقت اور سنی سنائی باتوں میں بہت فرق ہے۔پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں پھیلائی گئی منفی باتیں غلط ہیں۔اس کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں اپنے قیام اور سفر کے بارے میں معلوماتی وڈیوز اپنے یوٹیوب چینل پر پیش کرکے روسی عوام کو پاکستان کے مثبت اور حقیقی چہرے سے روشناس کرائے گاجس سے روس اور پاکستان کے درمیان فاصلے تیزی سے کم کرنے میں مدد ملے گی اور مزید سیّاح پاکستان کا رخ کریں گے۔
اس کے بہ قول ماضی میں پاکستان کے ویزے کا حصول بہت مشکل تھا،لیکن موجودہ حکومت نے ویزاحاصل کرنے کا عمل آسان بنادیا ہے اور اسے ویزا حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔اب یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک دن میں الیکٹرانک ویزا بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔روس کے سیّاح پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں، لیکن ویزے کا حصول ایک رکاوٹ بنا رہا۔ اس نے امید ظاہر کی اس کے چینل پر پاکستان کے حسین مقامات، سکیورٹی کی بہترصورت حال اور ویزے کے حصول کا آسان طریقہ جاننے کے بعد روسی سیّاحوں کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کرے گی۔
ملک میں اس صنعت کی بحالی اور اسے ترقی دینے کے ضمن میں سات نومبر کا دن کافی اہم تھا۔اس روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک میں سیّاحت کے فروغ کے سلسلے میں اجلاس ہوا جس میں معاون خصوصی سید ذوالفقار عباس بخاری،معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اورمتعلقہ سینئر افسران شریک ہوئے۔اجلاس میں ملک میں سیّاحت کے فروغ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
وزیراعظم کو بتایا گیا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل ٹورازم اسٹریٹیجی 2020-2030تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل ٹورازم ایکشن پلان 2020-2025مرتب کیا گیا ہےاورسیّاحت کے فروغ کے لیے مختلف ایونٹس کے لئے نیشنل کلینڈر ترتیب دیا گیا ہے۔ پی ٹی ڈی سی میں اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا ہے،ادارے کی نئی ویب سائٹ بنائی گئی ہے اور آن لائن بکنگ کا نظام رائج کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ سیّاحت سے متعلق مختلف ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کا عمل جاری ہے۔ اجلاس میں صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا میں سیّاحت کے فروغ کے لیے مختلف اقدامات پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔
اس موقعے پر وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیّاحت کا بہت پوٹینشل موجود ہے جسےبہ رؤے کار لانے کی ضرورت ہے۔اس شعبے کے فروغ سے نہ صرف پاکستان میں رہنے والے افراد کو تفریح کی معیاری سہولیتیں میسر آئیں گی بلکہ دنیا بھر سے لوگ پاکستان کا رخ کریں گے جس کے نتیجے میں سیّاحت سے منسلک شعبوں کوبھی فروغ ملے گا اور نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے بے شمار مواقعے پیدا ہوں گے۔
اس صنعت کے فروغ کے ضمن میں ایک اچھی خبر سترہ نومبر کو وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی جانب سےبھی آئی۔اس روزپاکستان میں تعینات اطالوی سفیر نے ان سے خصوصی ملاقات کی اور پاکستان میں سیّاحت کے فروغ کے لیے تیکنیکی معاونت فراہم کرنے کی پیش کش کی۔اس ملاقات کے بعد زلفی بخاری کا کہنا تھاکہ اٹلی شمالی علاقوں میں سیاحتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے تیار ہوگیا ہے اورسیّاحت کے فروغ سے ملکی معیشت میں 20ارب ڈالرز کا اضافہ ہوگا۔
اس موقعے پر اطالوی سفیر کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت سیّاحت کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے۔اٹلی پاکستان میں سیّاحت سے متعلق منصوبوں میں تعاون کا خواہاں ہے اور دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی کے لیے مزید اقدامات کریں گے۔ زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ سیّاحت کے فروغ کے لیے اہم اور بڑے فیصلے کیے گئےہیں اور برانڈ پاکستان کی تشکیل کا کام جلد مکمل ہوجائے گا ۔ کرتارپورکوریڈور پاکستان میں مذہبی سیّاحت کے فروغ کی اہم کڑی ہے۔ کرتارپور کے اقدام سے دنیا میں پاکستان کا مثبت تشخّص سامنے آیا ہے۔
وزیراعظم نے صوبوں کے ساتھ مل کرسیّاحت کے شعبے میں کام تیز کرنے کو کہا ہے۔ گندھارا تہذیب اور ثقافتی ورثہ غیر ملکی سیّاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ کوریا، جاپان اور چین جیسے ممالک سے سیّاح پاکستان آئیںگے۔ ذوالفقارعباس بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی تشکیل نو مکمل ہونے کے بعد اس کی چالیس املاک کو منافع بخش بنا رہے ہیں۔پی ٹی ڈی سی کی املاک کو لیز پر دینے کا عمل جلد شروع ہو جائے گا۔
لیکن28نومبر کو یہ بُری خبر آئی کہ ورلڈ اکنامک فورم 2019 کے جاری کردہ مسابقتی انڈیکس کےمطابق سیّاحت کے شعبے میں 140ممالک میں پاکستان 121 ویں نمبر پر ہے۔یہ خبر اس بات کی جانب اشارہ ہےکہ ہمیں ملک میں سیاحت کے لیے بنیادی ڈھانچا ،امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور سیّاحوں کو بہترین خدمات فراہم کرنے کے ضمن میں بہت کچھ کرنا ہوگا ۔ اس انڈیکس کے مطابق بہترین سیّاحتی ممالک میں اسپین پہلے ،فرانس دوسرے، جرمنی تیسرے ، جاپان چوتھے،امریکا پانچویں،برطانیہ چھٹے،آسٹریلیا ساتویں،اٹلی آٹھویں، کینیڈانویں اورسوئزرلینڈدسویں نمبر پر ہے۔
انڈیکس میں بھارت34ویں نمبر پر سیّاحوں کے لیے بہترین ملک قراردیا گیا ہے۔ہمارے لیے یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ129ممالک کی فہرست میں پاکستان 121 ویں نمبر پرہے۔ سب سے آخر میں،یعنی 129 ویں نمبر پر نائیجریا کو سیّاحوں کے لیے بہترملک قرار دیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کا آن لائن ویزا پالیسی کے اجرا کے افتتاح کے موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات رقبے میں سوئٹزرلینڈ سے دوگنا ہیں۔ اسی طرح سات نومبر کو سیّاحت کے فروغ کے ضمن میں ہونے والے اجلاس میں ملکی تاریخ میں پہلی باردس سالہ نیشنل ٹوارزم حکمت عملی تشکیل دی گئی تھی اور نیشنل ٹورازم ایکشن پلان 2020اور 25 بھی مرتب کیا گیا ہے۔
سیّاحت ہر گزرتے دن کے ساتھ ان گنت اقتصادی کام یابیوں کے آسانی سے حصول کا ایک بڑا ذریعہ بنتی جارہی ہے۔چھ دہائیوں میں یہ دنیا کے سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ نمو پانے والے اقتصادی شعبوں میں سے ایک بن گیا ہے اورعالمی سطح پر سیّاحوں کی تعدادمیں روز بہ روز زبردست اضافہ دیکھا جارہا ہے۔1950ء میں سیاحت کرنے والے افراد کی تعداد محض25ملین کے قریب تھی،لیکن 2015ء میں جمع کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق سیّاحوں کی مجموعی تعداد 1.2 بلین تک پہنچ چکی تھی۔اس صنعت کا عالمی معیشت میں سات کھرب ،چھ ارب ڈالرز کا حصہ ہے جو دنیا کی کُل معیشت کا 10.2 فی صد بنتا ہے ۔
دوسری جانب صرف2016میں اس صنعت سے 20 کروڑ 92 لاکھ افراد کے لیے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوئے،یعنی ملازمتوں کی تخلیق کے حساب سے دنیا کی ہر دس ملازمتوں میں سے ایک ملازمت اس شعبے کی مرہونِ منت ہے۔اس کی بنیادی وجہ اس شعبے سے ٹرانسپورٹ، مواصلاتی خدمات،جیسے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، گیسٹ ہاوسز،ٹورسٹ سووینیئر شاپس، ٹریول گائیڈز،ٹورز آپریٹرزکا کاروبار اوردیگر ان گنت ذیلی شعبوں کا منسلک ہونا ہے۔ اقتصادی ماہرین کو توقع ہے کہ یہ صنعت 3.3 فی صد کی اوسط شرح سے2030تک مسلسل نمو پذیر رہے گی۔
یواین ڈبلیو ٹی او کے مطابق سیّاحت کےکاروبار کا حجم تیل،اشیائے خورونوش اور گاڑیوں کی صنعت کو بھی پیچھے چھوڑتا جارہا ہے۔2017میں تقریبا ایک ارب تیس کروڑ افرادنے سیر و سیّاحت کے لیے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا۔ یہ تعداد 2016 کے مقابلے میں چھ اعشاریہ آٹھ فی صد زیادہ تھی۔ سیّاحوں کی آمد کے حوالے سے 2017میں دنیا کےاولین دس ممالک میں بالترتیب فرانس،ا سپین، امریکا، چین، اٹلی، میکسیکو، برطانیہ، ترکی، جرمنی اور تھائی لینڈ شامل تھے۔
بعض یورپی ممالک اور امریکا ہمیشہ سے سیّاحوں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش مقامات رہے ہیں، لیکن کچھ عرصے میں بعض دیگر ممالک بھی تیزی سے اس فہرست میں شامل ہورہے ہیں اور بیش بہا اقتصادی فوائد حاصل کررہے ہیں۔یہاں سوال یہ ہے کہ ہم اس فہرست میں کیوں شامل نہیں ہوسکتے؟ورلڈ ٹورازم اینڈ ٹریول کونسل کے مطابق پاکستان میں سیّاحت کے بہترین مواقعےموجودہونےکےباوجوداِس شعبےکاملک کی اقتصادی ترقی میں حصہ بہت کم ہے۔
ہماری معیشت میں سیّاحت کا حصہ صرف 793ارب روپے ہے، یعنی ملکی جی ڈی پی کا صرف دو اعشاریہ سات فی صد، یعنی لگ بھگ آٹھ ارب ڈالرز۔ اگر ہم اِس شعبے پر تھوڑا سا بھی دھیان دیں تو ہمارے لیے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ملکی معیشت کو اِس حوالے سے کس قدر فائدہ ہوسکتا ہے۔