کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان کرکٹ ٹیم کاناکام دورئہ نیوزی لینڈ ہفتے کو خدا خدا کرکے ختم ہوگیا، کھلاڑیوں کی انفرادی اور ٹیم کی مجموعی کارکردگی اتنی ناقص رہی کہ قوم کو جوڑنے والےکھیل نے عوام کے دل ہی توڑ دیے ہیں۔ شائقین کرکٹ سےبیزار ہونے لگے ہیں۔ پاکستانی کر کٹ ٹیم کا مشن دورہ نیوزی لینڈ بری طرح ناکام رہا ،ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ سیریز میں پاکستانی کھلاڑی کھیل کے ہرشعبے میں بری طرح بے نقاب ہوئے۔ قیادت میں بھی خامیاں نمایاں رہیں، قومی ٹیم ایک روزہ سیریز کا آخری میچ ہفتے کو مائونٹ مونگا نوئی میں کھیل رہی ہے، پانچ ٹی ٹوئنٹی میں صرف ایک کامیابی اسے تیسرے میچ میں نو وکٹوں سے ملی۔ دورہ مجموعی طور پر ناکامیوں کی داستان سناتا رہا۔ٹیم میچ کے بعد وطن لوٹے گی،بولنگ اور بیٹنگ دونوں شعبے میں کوئی بھی کھلاڑی غیر معمولی پر فارمنس سے شائقین کر کٹ کا دل نہ جیت سکا، شاہین آفریدی اور حارث رئوف جیسے ذمے دار اور منجھے ہوئے بولرز بھی بجھے ہوئے ثابت ہوئے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان جیسے تجربے کار بیٹرز کابیٹ بھی خاموش رہا، ٹیم میں شامل نئے خون میں بھی کوئی خود کو اس سیریز کی دریافت نہ بنا سکا، چیمپئنز ٹرافی کی ہزیمت اور نیوزی لینڈ میں ہونے والی شکست پاکستان کرکٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن گئی ہے، ملک کا مقبول ترین کھیل اور قوم کے دلوں کی دھڑ کن کرکٹ بھی قومی کھیل ہاکی کے انجام کی جانب رواں دواں ہورہا ہے۔ ناکامیوں کا دفاع کرنے کے لئے کپتان، ٹیم کے کھلاڑیوں اور بورڈ حکام کے پاس لفظوں کا کھیل بھی ختم ہوتا جارہا ہے، اسی لئے کپتان محمد رضوان کا کہنا تھاکہ نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز چیلنجنگ ہیں مگر یہ کوئی معذرت نہیں، کچھ عرصے سے ہم میچ کے اہم مواقع ضائع کررہے ہیں۔ ہمارے بولرز سوئنگ نہیں کرسکے، کیوی بولرز نے اچھی بولنگ کی، ہماری کارکردگی مایوس کُن رہی۔ سابق کھلاڑیوں کی جانب سے مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ دونوں اہم فاسٹ بولرز کو بھی آرام دیا جائے۔ ٹیسٹ کرکٹر سعود شکیل نے مستقل کوچ کی تقرری کا مطالبہ کر دیا۔ سابق کرکٹر کامران اکمل کہتے ہیں پاکستان کرکٹ کا کوئی نہیں سوچ رہا، ہر کھلاڑی انفرادی کھیل رہا ہے، پاکستان کی کرکٹ کے ساتھ کمپرومائز کیا، گراس روٹ لیول پر چیزیں تبدیل کرنا ہونگی۔ اس بدترین کارکردگی کے بعد پاکستانی مداحوں میں بے چینی ہے، ان کایہ مطالبہ ہے کہ اس ٹیم کو بڑی ٹیموں کے بجائے نیپال اور ہانگ کانگ کے خلاف کھلایاجائے، کیونکہ ہر ٹیم میں دو تین ٹیل اینڈرز ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی ٹیم میں گیارہ ٹیل اینڈرز ہیں۔ جس ٹیم کے ابتدائی کھلاڑیوں کا حال یہ ہو کہ وہ فاسٹ بولنگ سمجھ نہیں پارہے، خود کو بچائیں یا وکٹ کو، ان سے توقع رکھیں کہ وہ کسی فاسٹ پچ پر اچھا آغاز دیں گے، سفارشی بنیادوں پر منتخب ہونے والے کھلاڑیوں کا حال یہ ہے کہ نہ انہیں گیند نظر آتی ہے اور نہ باؤنسر سے نمٹنے کا طریقہ، ٹیم مینجمنٹ کی بہت سی غلطیاں بھی اس سیریز میں آشکار ہوگئی۔