حسین آباد، گلگت بلتستان (اے ایف پی) وادی اسکردو کے کسانوں نے پانی کے مسئلے کا حل آرٹیفیشل گلیشیئرز یعنی مصنوعی گلیشیئر میں تلاش کرلیا ہے جس کے ذریعے اب وہ سیب اور خوبانی کے باغوں کو سیراب کر سکتے ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں اسکردو میں ندیوں سے پانی گائوں تک لایا جاتا ہے ، منفی درجہ حرارت میں پانی کا اسپرے کیا جاتا ہے جس سے برف ٹاور بنتا ہے ، درجہ حرارت بڑھتے ہی یہ آہستہ آہستہ پگھلتا رہتا ہے، باغوں کو سیراب کرنے کیلئے ضرورت پوری ہوتی ہے، کسانوں کے مطابق پہلے پانی حاصل کرنے کیلئے جون میں گلیشیئر ز پگھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا، آئس ٹاورز نے ہمارے کھیت بچالئے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں 13 ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں کے کسانوں کو پانی کی کمی کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
خیال رہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پہلے کے مقابلے میں برف کم پڑنا شروع ہو گئی ہے جو دراصل گلگت بلتستان کی وادیوں کو سیراب رکھنے کا اہم ذریعہ تھا۔
قرارقرم کے پہاڑی سلسلے میں 2,600 میٹر کی بلندی پر واقع وادی اسکردو کے کسانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی کے مسئلے کا حل تلاش کیا ہے۔
اسکردو کے کسان غلام حیدر نے بتایا کہ انہوں نے آرٹیفیشل گلیشیئر کا طریقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب سے دریافت کیا ہے۔
اس طریقے کے تحت ندیوں سے پانی پائپ کے ذریعے گاؤں تک لایا جاتا ہے اور شدید سردی کے موسم میں فضا میں پانی کا سپرے کیا جاتا ہے۔
بلتستان یونیورسٹی کے پروفیسر حسین ذاکر کا کہنا ہے کہ ’منفی درجہ حرارت میں جب پانی سپرے کیا جاتا ہے تو فضا میں ہی جم جاتا ہے اور اس طرح سے برف کا ٹاور بن جاتا ہے۔‘ کون نما یہ آئس ٹاور دراصل پانی کو جمع کرنے کے کام آتا ہے اور موسم تبدیل ہونے اور درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ آہستہ آہستہ پگھلتا رہتا ہے۔ گلگت بلتستان میں 13 ہزار سے زائد گلیشیئر موجود ہیں جو قطبی خطبے سے باہر کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کے باعث دنیا کے اعلیٰ سیاحتی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ بلند پہاڑوں میں سے گزرتی ہوئی شاہراہ ریشم سیاحوں کو چیری کے باغات، گلیشیئرز اور برف کی نیلی جھیلوں کے درمیان لے جاتی ہے۔
افغانستان سے میانمار تک پھیلے ہوئے ہندوکش۔ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ماہر شیر محمد نے بتایا کہ اس علاقے کو پانی کی سپلائی کا بڑا ذریعہ موسم بہار میں پگھلنے والی برف ہے جبکہ کچھ حد تک گرمیوں میں سالانہ برف پگھلنے سے بھی پانی کی کمی پوری ہوتی ہے۔
’اکتوبر کے آخر سے اپریل کے اوائل تک، شدید برف باری ہوا کرتی تھی۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں موسم کافی خشک ہو گیا ہے۔‘ گلگت بلتستان میں آئس ٹاورز کا پہلا تجربہ سال 2018 میں کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے گلوف پراجیکٹ کے سربراہ راشد الدین نے بتایا کہ اب 20 سے زیادہ دیہات ہر موسم سرما میں آئس ٹاورز بناتے ہیں اور اس طریقے سے 16 ہزار سے زیادہ گھروں کو آبی ذخائر یا ٹینکی کے بغیر پانی میسر ہے۔
محمد رضا نامی کسان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان سردیوں میں ان کے گاؤں حسین آباد میں آٹھ آئس ٹاورز بنائے گئے تھے جن میں تقریباً 20 ملین لیٹر پانی برف کی صورت میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ ’اب پودے لگانے کے دوران پانی کی کمی کا سامنا نہیں ہوتا۔‘
زراعت کے شعبے سے وابستہ علی کاظم کا کہنا ہے کہ ’اس سے پہلے، ہمیں پانی حاصل کرنے کے لئے جون میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن آئس ٹاورز نے ہمارے کھیتوں کو بچا لیا ہے۔‘