• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوران سروس فوت سرکاری ملازم کی جگہ بیٹی نوکری کیلئے اہل قرار

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ نے دوران سروس وفات پانے والے سرکاری ملازم کی جگہ بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی عورت کے قانونی حقوق شادی کے بعد ختم نہیں ہو جاتے۔ عدالت عظمی نے خاتون کو نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ متعلقہ محکمہ درخواست گزار کو تمام سابقہ مراعات کے ساتھ بحال کرے۔ سپریم کورٹ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دے دیا۔ 9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ عورت کی شناخت، قانونی حقوق اور خود مختاری شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی۔ عدالت نے شادی شدہ بیٹیوں کو مرحوم والد کے کوٹے پر ملازمت نہ دینا غیر قانونی اور امتیازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کے پی سول سرونٹس رولز کے تحت مرحوم یا طبی بنیادوں پر ریٹائرڈ سرکاری ملازم کے تمام بچے ملازمت کے اہل ہیں۔ سیکشن افسر کی جانب سے ایک وضاحتی خط کے ذریعے رولز کو تبدیل کرنا غیر قانونی ہے، ایسی ایگزیکٹو ہدایات قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتیں، شادی کی بنیاد پر بیٹیوں کو مرحوم ملازم کے کوٹے سے خارج کرنا امتیازی سلوک ہے، ایسا عمل آئین کے آرٹیکل 25، 27 اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔ شادی سے عورت کی قانونی حیثیت، اس کی ذات اور خود مختاری ختم نہیں ہو جاتی، مالی خود مختاری بنیادی حق ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں بھی عورت کو اپنی جائیداد، آمدنی اور مالی معاملات پر مکمل اختیار حاصل ہے، پاکستان نے خواتین کیخلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے عالمی کنونشن کی توثیق کی ہے، اس کنونشن کے تحت شادی کی بنیاد پر ملازمت میں امتیازی سلوک ممنوع ہے،نسوانی قانونی نظرئیے کے تحت عورت کی معاشی اور قانونی خود مختاری کو تسلیم کرنا چاہئیے، ایسی روایات کو ختم کرنا چاہئیے جو شادی کی بنیاد پر عورتوں کو عوامی حقوق سے محروم کرتی ہیں، عدالتوں اور انتظامی اداروں کو اپنے فیصلوں میں صنفی حساس اور غیر جانبدار زبان استعمال کرنی چاہئیے۔
اہم خبریں سے مزید