• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پوری قوم کی نظریں بلوچستان پر لگی ہوئی ہیں کہ وہاں ایک شورش سی برپا ہے۔ ہمارے بیشتر سیاسی اور دِفاعی تجزیہ نگار اِس بدامنی کا ذمےدار اَفغانستان کو قرار دَے رہے ہیں جو اِن دنوں بھارت اور اِسرائیل کے زیرِاثر ہے۔ اُس نے اُن دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دَے رکھی ہے جو پاکستان میں دراندازی کرتی اور رِیاست کے اداروں کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ بظاہر یہ تجزیہ درست معلوم ہوتا ہے، مگر تاریخ اِس ضمن میں بڑے بڑے سوالات اٹھاتی ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے سوالات کا جواب دینے کے بجائے تاریخ سے اپنا تعلق توڑ لیا ہے اور وُہ اَندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔

بلاشبہ مختلف وجوہ سے بلوچستان کے حالات آغاز ہی سے ناہموار ہی چلے آ رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے مقامات بھی آئے جہاں معاملات قابو سے باہر ہوتے رہے۔ اُن میں 26؍اگست 2006ء کا واقعہ بہت ہی المناک تھا جب نواب اکبر خاں بگٹی ایک زوردار دَھماکے میں جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اُنہوں نے ایک غار میں پناہ لے رکھی تھی اور اُن کی صحت آخری دموں پر تھی۔ اُن کے 2005ء سے اربابِ حکومت سے تعلقات انتہائی کشیدہ چلے آ رہے تھے۔ حالات اِس قدر خراب ہوئے کہ نواب صاحب کی نجی فورس اور رِیاست کی فوج کے درمیان خوفناک تصادم ہوا اَور پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اُن دنوں جنرل پرویز مشرف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو تھے، تاہم پارلیمنٹ قائم تھی جس میں یہ خونیں تصادم زیرِبحث آیا اور ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے چیئرمین مشاہد حسین سیّد منتخب ہوئے۔ اُس کمیٹی نے سو روز کے اندر ایک جامع رپورٹ تیار کی جو جنرل پرویز مشرف اور نواب اکبر بگتی کی خدمت میں پیش کی گئی۔ تب چودھری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سیّد، نواب اکبر بگتی سے ملاقات کیلئے ڈیرہ بگتی گئےا ور تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد ایک معاہد ہ طے پایا جس پر نواب اکبر بگتی نے بھی دستخط ثبت کر دیے تھے۔ معاملات معمول پر آنے لگے تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ جنرل پرویز مشرف کوہلو کے دورے پر گئے، تو اُن پر میزائل داغا گیا۔ ہارڈ لائنرز نے یہ افواہ پھیلائی کہ حملہ نواب اکبر بگٹی کی طرف سے ہوا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا بیان بھی آ گیا کہ مجھ پر حملہ نواب اکبر بگٹی کی طرف سے ہوا ہے جو اَفغانستان کا ایجنٹ اور پاکستان کا دشمن ہے۔ بدقسمتی سے نیم جاں اکبر بگٹی کا جسم ایک دھماکے کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔

اِس حادثے پر لاہور میں صحافی جمع ہوئے۔ اُنہیں اکبر بگٹی کے بہیمانہ قتل پر سخت ملال تھا۔ عارف نظامی، مجیب الرحمٰن شامی اور یہ خاکسار تعزیت کیلئے کوئٹہ روانہ ہوئے۔ اُن دنوں میجر جنرل محمد فاروق کوئٹہ میں ایک ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ میرے بھانجے ارتضا الرحمٰن کے ذریعے اُن سے ایک مدت سے گہری شناسائی تھی۔ جب مَیں نے اُنہیں بتایا کہ ہم چند صحافی کوئٹہ آ رہے ہیں، تو اُنہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھائیے گا، چنانچہ مَیں اور جناب مجیب الرحمٰن شامی اُن کے دفتر پہنچ گئے۔ ہمارا اُن کے پی آر اَو نے استقبال کیا۔ رسمی گفتگو کے بعد اُنہوں نے اپنے اِس دکھ کا برملا اظہار کیا کہ آپ جیسے بلندپایہ حضرات کے آنے سے علیحدگی پسند عناصر کو تقویت ملے گی۔ اُنہوں نے اپنا یہ فقرہ بار بار دُہرایا، تو مَیں نے قدرے بلند آواز میں کہا کہ تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان کا کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے جس کی تلافی مجھے مشکل نظر آتی ہے۔ نواب اکبر بگٹی اُن بلوچ سرداروں میں سب سے زیادہ پُرعزم تھے جنہوں نے بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا تھا اور پاکستان کیلئے باقاعدہ لابنگ کی تھی۔ وہ ایک زمانے میں پاکستان کے وزیرِ دفاع بھی رہ چکے تھے۔ دراصل وہ بلوچستان اور پاکستان کے درمیان ایک مضبوط پُل کی حیثیت رکھتے تھے۔

اِس کے بعد 2008ء کے انتخابات آ گئے جن میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے بلوچستان میں کوئی خاص دلچسپی نہ لی، جبکہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں سسٹم سے الگ تھلگ رہیں۔ میرے اُن کے ساتھ تھنک ٹینک پائنا (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز) کے ذریعے تعلقات قائم ہوئے جو قومی یک جہتی کو فروغ دینے کیلئے مسلسل کام کر رہا تھا جس کے اچھے نتائج پیدا ہو رہے تھے۔ دریںاثنا 2013ء کے انتخابات سر پر آ گئے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ تمام قوم پرست جماعتوں نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا ہے جو ایک انتہائی تشویشناک بات تھی، چنانچہ ہم نے پائنا کے تحت پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور یہ سیمینار پورے ملک میں گفتگو کا موضوع بن گیا۔ ہم نے بلوچستان کی سیاسی اور صحافتی قیادت کو دعوت دی۔ نواب غوث بخش باروزئی جو ایک باوقار شخصیت کے مالک ہیں، وہ کانفرنس میں بہت نمایاں ہوئے اور اِسی بنیاد پر وہ بلوچستان کے نگران وزیرِاعلیٰ مقرر ہوئے۔ تین روز تک بلوچستان کے مسائل زیرِبحث آتے اور اَخبارات اور ٹی وی کی زینت بنتے رہے۔ اِس سے بلوچستان کی قیادت کی سوچ بدلنا شروع ہوئی۔

وزیرِاعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف نے بلوچستان کی سیاسی قیادت کو عشائیے پر مدعو کیا۔ اُن کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ میاں شہباز شریف نے اُن سے کہا آپ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اُن میں بھرپور حصّہ لیں اور ہمارے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیں۔ اِن مذاکرات میں خواجہ سعد رفیق بھی شامل تھے۔ خوش قسمتی سے ایک معاہدہ طے پا گیا۔ انتخابات میں تاریخ نے ایک موڑ کاٹا اور معاہدے کے تحت پہلے ڈھائی سال کیلئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ بنے اور ڈھائی سال کیلئے مسلم لیگ نون نے نواب ثناء اللہ خاں زہری حکومت چلاتے رہے۔ ان پانچ برسوں میں بلوچستان بڑی حد تک پُرامن رہا۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان کانفرنس میں پچیس سے زائد سیاستدانوں، صحافیوں اور یونیورسٹی کے پروفیسروں نے حصّہ لیا تھا۔ میرا پوتا افنان کامران جو یونیورسٹی کا طالبِ علم تھا، اُس نے اُن کی دیکھ بھال میں گہری دلچسپی لی اور اُن سے تعلقات بھی قائم کر لیے۔ اب وہ پائنا کا سیکرٹری جنرل ہے۔

تازہ ترین