کوئٹہ (اسٹاف رپورٹر)بغیر پھاٹک والی ریلوے کرا سنگ کو پر 24گھنٹے جاری رہنے والی آمدورفت سے حادثات معمول بن چکے ہیں ان حادثات میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں اور بہت سے افراد مستقل معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں مگر متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری تسلیم کرنے یا اصلاح احوال کی بجائے ایک دوسرے پرالزامات عائد کرتے نظر آتے ہیں،ملک بھر میں 2731 کھلے پھاٹک ہیں جن پر متعددحادثے ہو چکے ہیں ، ریلوے حکام سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں یکسر ناکام ہو چکے ہیں۔ ریلوے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں 11881 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک پر کل 4072 ریلوے کراسنگ ہیں ان میں سے صرف 1341 پر پھاٹک موجود ہیں جبکہ2731 پھاٹک سے محروم ہیں۔ ریلوے کے ملتان ڈویژن میں 318، کراچی ڈویژن میں 481، سکھر ڈویژن میں 632، لاہور ڈویژن میں 553، راولپنڈی ڈویژن میں 426، پشاور ڈویژ ن میں170اور کوئٹہ ڈویژن میں 107 بغیر پھاٹک کے ریلوے کراسنگ موجود ہیں۔ ریلوے ذرائع کے مطابق ریلوے کراسنگز پر پھاٹک نہ لگوانے کی ذمہ صرف موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں کا ریکارڈ بھی کچھ قابل تحسین نہیں رہا۔متعدد بغیر پھاٹک کراسنگز پر صرف انتباہی بورڈز ہی لگے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے آج پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے کہ جہاں ریلوے کراسنگ سب سے زیادہ غیر محفوظ تصور کئے جاتے ہیں۔