یہ 15مئی 1948کی رات تھی۔ یروشلم کی گلیاں سنّاٹے میں ڈوبی تھیں، لیکن ایک گھر کے اندر ایک چھوٹا سا فلسطینی لڑکا، یوسف، اپنی ماں سے پوچھ رہا تھا،‘‘ امی، یہودی فوجیں آ رہی ہیں، کیا ہم سب مر جائیں گے؟ ’’ماں کے ہونٹ کانپے، وہ جانتی تھی کہ کچھ بھی کہنے سے حقیقت نہیں بدلے گی۔ دروازہ پیٹا گیا۔نکلو، یہ گھر اب ہمارا ہے!۔ اس لمحے تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ فلسطینیوں کیلئے جلا وطنی، موت اور بے وطنیت کا آغاز ہوا۔
یہ کہانی 19ویں صدی کے آخر میں شروع ہوتی ہے جب تھیوڈور ہرزل نے 1897میں زیورخ میں پہلی صہیونی کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ہمیں دنیا میں ایک یہودی ریاست قائم کرنی ہے اور فلسطین ہمارا قدرتی حق ہے۔یہ نظریہ صرف ایک خواب نہ رہا، بلکہ یورپ اور خاص طور پر برطانیہ کی پشت پناہی سے ایک سیاسی تحریک میں تبدیل ہوا۔1917 میں برطانیہ نے بالفور ڈکلیئریشن جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ہم فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک قومی وطن کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ اس ایک پیرا گراف نے عرب دنیا کی قسمت بدل دی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی تو فلسطین پر برطانوی قبضہ ہوا، اور یورپ بھر سے یہودی آباد کاروں کو وہاں بسایا جانے لگا۔ 1920سے 1947تک، فلسطین میں یہودی آبادی کا تناسب 10فیصد سے بڑھ کر 33فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ادھر مسلم دنیا گہری نیند میں تھی۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم دنیا قیادت سے محروم ہو چکی تھی۔ مصر، عراق، اردن، شام سب نوآبادیاتی نظام کے تحت بٹے ہوئے تھے۔ باہمی اختلافات، مسلکی تقسیم اور حکمرانوں کی عیش پرستی نے انہیں اس قابل ہی نہ چھوڑا تھاکہ وہ فلسطین کے مسئلے پر متفق ہو سکتے۔
1947 میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا: ایک یہودی ریاست (56فیصد علاقہ)، ایک عرب ریاست (43 فیصد)، اور یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا۔ یہ تجویز مسلمانوں کیلئے ناقابلِ قبول تھی، کیونکہ ان کی زمین ان کی مرضی کے بغیر چھینی جا رہی تھی۔ مگر اسرائیلیوں نے اس منصوبے کو فوراً قبول کر لیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ صرف شروعات ہے۔
14 مئی 1948کو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم، ڈیوڈ بن گوریان نے ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اگلے ہی دن اردن، مصر، شام، عراق اور لبنان کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ لیکن جو ہونا تھا وہی ہوا۔ عرب ممالک کی جنگی حکمت عملی بکھری ہوئی تھی، افواج جدید اسلحہ سے محروم تھیں۔اسرائیل نے نہ صرف اس حملے کو روکا بلکہ مزید فلسطینی علاقے پر قبضہ بھی کر لیا۔ فلسطین کا 78 فیصد علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آ گیا، باقی 22فیصد مغربی کنارہ اور غزہ بچا، جس پر اردن اور مصر کا کنٹرول رہا۔ تقریباً 8 لاکھ فلسطینی اس دوران اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے۔ اسے ’’نکبہ‘‘ یعنی تباہی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر آج بھی اردن، لبنان، شام، اور دیگر ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ عرب دنیا ہاری کیوں؟ اسکی سب سے بڑی وجہ سیاسی نااتفاقی تھی۔ مصر کے بادشاہ فاروق، اردن کے شاہ عبداللہ، اور شام کے صدر کے اپنے مفادات تھے۔ ان کے درمیان کوئی مشترکہ کمانڈ نہیں تھی۔ اسرائیل کے پاس جدید ہتھیار، امریکی حمایت، اور یورپی اسلحہ تھا، جبکہ عرب ممالک نے محض جذباتی نعروں پر جنگ لڑنے کی کوشش کی۔
دوسری وجہ مغربی طاقتوں کی کھلی حمایت تھی۔ امریکہ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں صرف 11 منٹ لیے۔ برطانیہ نے فلسطین سے جاتے جاتے اسرائیل کو مکمل انتظامی ڈھانچہ دیا۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے مالی و عسکری امداد فراہم کی۔
1948 کے بعد مزید تین جنگیں ہوئیں 1956، 1967، اور 1973مگر نتیجہ یہی رہا: عرب دنیا کو شکست، اسرائیل کا پھیلاؤ، اور فلسطینیوں کا مزید بکھراؤ۔1967 کی جنگ جسے‘‘ چھ دنوں کی جنگ ’’کہا جاتا ہے، میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں، اور صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ صرف چھ دنوں میں اسرائیل نے تین عرب ممالک کو شکست دی۔ اس جنگ کے بعد دنیا کو یقین ہو گیا کہ اسرائیل ایک طاقتور ریاست ہے اور عرب دنیا غیر منظم۔پھر آہستہ آہستہ اسرائیل نے امریکہ کو اپنی دفاعی چھتری بنا لیا۔ 1979 میں مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت اسرائیل کو تسلیم کر لیا، 1994میں اردن نے۔ فلسطینیوں کے خواب ٹوٹنے لگے۔ اگر آج ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو سب سے بڑی غلطی اتحاد کی کمی تھی۔ مسلمان ممالک نے کبھی ایک پلیٹ فارم سے اسرائیل کی مخالفت نہیں کی۔ او آئی سی جیسے ادارے صرف بیانات تک محدود رہے۔ کوئی عملی اقدامات نہ ہوئے۔مغرب نے ایک منصوبہ بنایا، اور اسے بڑی حکمت سے آگے بڑھایا پہلے نظریاتی جنگ، پھر سیاسی حمایت، اور آخر میں عسکری قبضہ۔ جبکہ مسلمان دنیا جذباتی، غیر منظم اور بکھری ہوئی رہی۔ آج بھی فلسطینی بچے یوسف کی طرح سوال کرتے ہیں،‘‘ کیا ہم مر جائیں گے؟ ’’اور ان کی مائیں خاموش ہو جاتی ہیں، کیونکہ ان کے پاس اب بھی جواب نہیں ہے۔