• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرنگ بلوچ کو سول رائٹس ایکٹوسٹ تسلیم نہیں کرتا، انوار الحق کاکڑ

کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق نگراں وزیراعظم سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہے کہ ماہرنگ بلوچ کو سول رائٹس ایکٹوسٹ تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر انتخابی رویہ اپناتی ہیں اگر صرف ایک مخصوص گروہ کی حمایت کی جائے اور باقی مظالم پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ غیرجانبدار سول ایکٹوسٹ نہیں بلکہ کسی مخصوص بیانیے کی نمائندہ بن جاتی ہیں، جعفر ایکسپریس کے خودکش حملہ آوروں کی لاشیں زبردستی چھیننے کی کوشش کی گئی اور اس پر جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کی تو اس پر واویلا مچایا گیا ماہرنگ بلوچ انہیں کور فراہم کرتی ہیں اور اختر مینگل جیسے رہنما ماہرنگ بلوچ کو کور فراہم کرتے ہیں تو ہم کیا سمجھیں یہ تینوں ایک دوسرے سے لینک نہیں ہیں، یہ لوگ مسنگ پرسن کا مسئلہ بطور پروپیگنڈا استعمال کرتے ہیں حل نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جیو نیوز کے پروگرام ʼجرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان سلیم صافی سے کیا۔ سینیٹر انورالحق نے مزید کہا کہ ریاست پاکستان کے پاس طاقت اور بات چیت دونوں کے آپشن موجود ہیں ریاست خود فیصلہ کریگی کہ کب کون سا آپشن استعمال کرنا ہے۔ بلوچستان کے وسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زمین کے نیچے موجود تمام معدنی وسائل ریاست پاکستان کی ملکیت ہیں اور ان کی تقسیم کا آئینی فارمولا طے ہے جس سے اختلاف درست نہیں۔ ریکوڈک منصوبے سے صوبے کو اربوں روپے کا فائدہ ہوگا، لیکن کچھ حلقے حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان جتنا ٹیکس دیتا ہے اس سے زیادہ اسے دیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک مشترکہ گھر ہے۔ سینیٹر کاکڑ نے کہا کہ جو شخص تشدد کو جواز فراہم کرتا ہے وہ مجرم ہے اگر قوم اس پر متفق ہو جائے تو ان عناصر سے نمٹنا مشکل نہیں۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ میرے نزدیک جب بھی بلوچستان کے مسئلے کو دیکھا گیا ہے وہ روایتی طور پر تین چار لوگوں کی نظر سے دیکھا ہے میر بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی ، نواب بخش مری اور اچکزئی شہید کے حوالے سے دیکھا ہے باقی ایسا نظر آیا ہے کہ کسی کا سیاسی وجود نہیں ہے جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان زعماں کا اپنا اثر تھا لیکن محدودتھا۔ جبکہ یہاں پر جام غلام قادر ، جعفر خان جمالی وغیرہ بھی موجود ہیں یہ جتنی بھی سیاسی عناصر تھے انہوں نے وفاق کی سیاست کی اور روز اول سے اکثریت میں رہے انکی آواز کو مین اسٹریم میں جگہ نہیں ملی۔ نوجوانوں کا ریاست سے متنفر ہونا یا ریاست سے دور ہوجانا اور ایک پرتشدد رویہ اختیار کرلینا اس رویہ کو اخلاقی، قانونی اور شرعی طور پر جواز فراہم کیا جاسکتا ہے قطعاً نہیں کیا جاسکتا اور کیا وہ وجوہات جن کی وجہ سے بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے کہ ریاست کے اس رویے کے ردِ عمل میں یہ رویہ پیدا ہوا ہے تو کیا پاکستان کے باقی علاقوں گلگت بلتستان، کشمیر ، پنجاب ، انٹریر سندھ، انٹریر پنجاب میں وہ حالات موجود نہیں ہیں بالکل موجود ہیں لیکن وہاں کا جوان اس طرح کے پرتشدد کارروائی نہیں کرتا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اور وجوہات بھی ہیں۔ مسینگ پرسنز کے حوالے سے کہا کہ اس کے دو پہلو ہیں کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو مجھے ان کی نیت پر شک ہے کیوں کہ انہوں نے کبھی بھی اس مسئلے کے حل کی تجویز نہیں دی بلکہ اسے پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ عالمی میڈیا میں ان کو توجہ حاصل ہو۔
اہم خبریں سے مزید