پاکستان کے مایہ ناز اسکالر، سیاسی مدبر اور اِسلامی تحریکوں کے ہم دم پروفیسر خورشید احمد 13؍اپریل کو جہانِ بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُون۔ اُن کی عمر 93سال تھی جس کا ایک ایک لمحہ اُنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی میں بسر کرنے اور اُس کی مخلوق کی حالت بہتر بنانے میں صَرف کیا۔ اُنہوں نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے انقلاب آفریں افکار کی ترویج جس انہماک اور جاںفشانی سے اسلامی ممالک کے علاوہ غیرمسلم اقوام تک پہنچانے میں جو سرتوڑ کوشش کی ہے، وہ عصرِ حاضر کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ کیا کوئی شخص یہ تصوّر کر سکتا تھا کہ برطانیہ کی سرزمین جو اِسلام کی طاقت کچلنے اور اِسلام کی صورت بگاڑنے میں استعمال ہوتی رہی، وہاں اسلام ایک اہم طاقت کے طور پر اُبھرے گا؟
تصنیف و تالیف کا ملکہ اُنہوں نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی ہمہ گیر شخصیت سے حاصل کیا اور اُردو اَور اَنگریزی میں سو سے زائد کتابوں کے مصنّف اور مؤلف بنے۔ اُن کے مضامین اور کتابوں کے ترجمے عربی، فارسی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی اور رُوسی زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں جن میں عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق انتہائی سہل انداز میں اسلام کے نظامِ حیات کا مکمل نقشہ پیش کیا جاتا رہا۔ ایک زمانے تک مسلمانوں کے ذہن پر مغربی اقوام کے علم و تحقیق کا رعب طاری رہا۔ اِس طلسم پر سب سے پہلی اور کاری ضرب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے لگائی اور یہ پیشین گوئی کی کہ تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے خودکشی کرے گی۔ اُن کے بعد سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے مغربی تہذیب کے تفصیل سے بخیے اُدھیڑنے شروع کیے اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ عہد جلد آنے والا ہے جب کمیونزم کو روس میں کہیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام امریکی تباہی کا سب سے مہلک سبب بنے گا۔ پروفیسر خورشید احمد نے ایک قدم اور بڑھایا اور یورپ میں بیٹھ کر ماہنامہ ’’Impact‘‘ جناب حاشر فاروقی کی ادارت میں جاری کیا جس میں ہر ماہ یورپی اقوام کے سیاسی، ثقافتی، علمی تضادات اور ہولناک مغالطوں کی نشان دہی کی جاتی اور تاریخ کے آئینے میں اُنہیں اُن کا اصل چہرہ دِکھایا جاتا۔ اِس علمی اور اِنقلابی کوشش نے مغربی اقوام کی مرعوبیت کا پورا طلسم توڑ ڈالا اور مسلمانوں کے اندر ایک گونہ اعتماد پیدا ہوتا گیا۔
خورشید احمد تو اَپنے غیرمعمولی کارناموں کی بدولت زندہ جاوید ہو چکے ہیں اور ہمارا فرض یہ ہے کہ اُنہوں نے جو اِدارے قائم کیے اور جن اعلیٰ روایات کی اپنے لہو سے آبیاری کی، اُنہیں مزید مستحکم کیا جائے اور اِس کلچر کو تمام تر وسائل اور توانائیوں کے ساتھ فروغ دیا جائے جو اذہان میں شفافیت لاتا اور دِلوں میں گھر کر جاتا ہے۔
وہ بنیادی بات جس نے پروفیسر خورشید احمد کو جوانوں اور غیرمسلموں میں مقبول بنایا، وہ اُنکی سادگی، صاف گوئی اور بےپناہ خوئے خیرخواہی تھی۔ اُن کے والد نذیر احمد قریشی ایک دولت مند شخص تھے جو جالندھر سے دہلی منتقل ہو گئے تھے، لیکن خورشید صاحب نے کبھی اپنے ہم جماعتوں پر دولت کی بہتات کا تاثر قائم نہیں ہونے دیا اور اَپنے آپ کو خودنمائی کے ہر اظہار سے الگ تھلگ رکھا۔ وہ ہر ملاقاتی کی بات بغور سنتے اور اُسے پوری اہمیت دیتے۔ اُن کی سب سے بڑی کوشش یہ ہوتی کہ سہارا دَے کر لوگوں کو اَپنے قدموں پر کھڑا کیا جائے اور اُس کی کسی کو کانوںکان خبر بھی نہ ہو۔ ہمارے محترم دوست جناب جاوید نواز اپنے معاشی استحکام کے حوالے سے پروفیسر صاحب کی غیرمعمولی اعانت کی داستان سناتے رہتے ہیں۔
پروفیسر صاحب 1956ء میں جماعتِ اسلامی سے منسلک ہو گئے تھے اور عمر بھر اُسی سے وابستہ رہے۔ اِس سے قبل وہ 1949ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو چکے تھے۔ اِسی دوران اُنہیں خوش قسمتی سے دو اَیسے باصلاحیت اور بیدارمغز دوست میسّر آ گئے جو زندگی بھر اُنکے ساتھی بنے اور بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتے رہے۔ اُن میں ایک مولانا ظفر احمد انصاری کے صاحبزادے ظفر اسحٰق انصاری اور دُوسرے خرم جاہ مراد تھے۔ اُنہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے مجلہ ’’سٹوڈنٹس وائس‘‘ نکالا جس نے پاکستان کے نہایت معروف قانون دان جناب اے کے بروہی کو اَپنی یہ رائے تبدیل کرنے کا سامان پیدا کیا کہ اسلام کے اندر اِسلامی دستور کا سرے سے کوئی تصوّر نہیں پایا جاتا۔ اپنے مؤقف میں تبدیلی کے بعد وہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے زبردست مداح بن گئے تھے۔ یہ غیرمعمولی کامیابی تھی۔
پروفیسر خورشید احمد نے جماعتِ اسلامی سے وابستگی کے باوجود دُوسری جماعتوں میں اہلِ خیر حضرات کے ساتھ روابط پیدا کیے۔ اُنہیں جہاں بھی خیر نظر آتا، وہ اُس کی طرف لپکتے اور اُس میں اپنا حصّہ ڈالنے میں پہل بھی کرتے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی تصنیف ’’سچ یہ ہے‘‘ شائع ہوئی، تو سو کتابیں دوستوں میں تقسیم کیں۔ اِسی طرح مفتی منیب الرحمٰن کا علمی کام جو بارہ جلدوں میں ہے، وہ اُسے اور ڈاکٹر اسرار اَحمد کی تفسیرِ قرآن کو پھیلانے میں بڑی دلچسپی لیتے رہے۔ راقم الحروف سرکاری ملازمت اور کچھ دوسری مجبوریوں کے سبب اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعتِ اسلامی کا رُکن نہیں بن سکا، مگر والدین کی تربیت اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی دعوتِ اقامتِ دین ہمارے پورے خاندان کو اِسلام کی خدمت بجا لانے پر اُکساتی رہتی۔ اِسی جذبے کے تحت ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کا اجرا عمل میں آیا جسے اللہ تعالیٰ نے بڑی مقبولیت عطا کی۔ پروفیسر صاحب مختلف وقتوں میں ہمارے غریب خانے پر تشریف لاتے اور ہمارے کام کی بہت حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے کہتے کہ اردو ڈائجسٹ نے ہلکے پھلکے انداز میں اسلام کا پیغام نوجوانوں تک پہنچانے میں غیرمعمولی کردار اَدا کیا ہے۔
یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پروفیسر صاحب جماعتِ اسلامی اور مسلم لیگ کو قریب لانے کی بھی کوشش کرتے رہے، کیونکہ اُنہوں نے دہلی میں بچہ مسلم لیگ قائم کی اور تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا تھا۔ ہمارے عزیز دوست جناب سلیم منصور خالد جو ماہنامہ ترجمان القرآن کی تیاری کیلئے پروفیسر صاحب سے رابطے میں رہے، اُنہوں نے بتایا کہ وہ ہمیں قائدِاعظم کی تقریریں اور خطوط پڑھنے کی بطورِ خاص تاکید کرتے، کیونکہ اُن میں اسلام کے آفاقی اصولوں اور تعلیمات کا بکثرت ذکر ہوتا جن پر وہ پاکستان کی تعمیر کے آرزومند تھے۔