• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز قبل پہلگام میں دہشت گردی کا جو سانحہ پیش آیا تھا، پاکستان نے اُس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اُسے بھارت کا فالس فلیگ آپریشن قرار دِیا کیونکہ اُس کی گھڑی ہوئی کہانی کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ مودی سرکار نے یہ انکشاف کیا تھا کہ کنٹرول لائن عبور کر کے چند پاکستانی دہشت گرد مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے اور تقریباً دو سو کلومیٹر کی مسافت طے کر کے وہ سیاحتی مقام پہلگام پہنچے جہاں سیاح آئے ہوئے تھے۔ دہشت گردوں نے 26 ہندو اَور 2 غیرملکی سیاح تہ تیغ کر دیے۔ یہ کہانی اِس لیے انتہائی لغو لگتی ہے کہ کنٹرول لائن پر بہت اونچی آہنی باڑ لگی ہے، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بجلی کے قمقمے روشن ہیں اور جگہ جگہ پر فوجی چوکیاں قائم ہیں جو گردوپیش پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔

اِس کہانی میں سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اِس واقعے کے پانچ دس منٹ بعد ہی پاکستان کے خلاف ایف آئی آر بھی کاٹ دی گئی جبکہ آٹھ دس دن گزر جانے کے باوجود ایک بھی دہشت گرد گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری یہ تسلیم کرنےکیلئے تیار نہیں کہ پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان ملوث ہے۔ حالانکہ بھارت کے وزیرِاعظم نریندرمودی دس سے زائد عالمی شخصیتوں سے ٹیلیفون پر بات کر چکے ہیں اور سینکڑوں سفارت کاروں کو وزارتِ خارجہ میں بریفنگ دی جا چکی ہے۔ بھارت کی اپوزیشن اِس بیانیے پر طرح طرح کے سوال اٹھا رہی ہے اور پوچھ رہی ہے کہ اتنے خطرناک سیکورٹی لیپس کا ذمےدار کون ہے۔ سیکورٹی میں بڑے بڑے شگاف پڑ جانے کے الزام میں نادرن کمان کا کمانڈر ہٹا دیا گیا ہے جس سے فوج میں ایک افراتفری پھیل گئی ہے۔ مودی سرکار کو سب سے بڑا سیٹ بیک سکھوں کی قیادت سے پہنچا ہے جس نے پاکستان کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیاہے۔ مشرقی پنجاب میں دو کروڑ سکھ آباد ہیں۔

نریندرمودی پہلگام میں کی جانے والی دہشت گردی سے بیک وقت کئی مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ فوری مقصد ریاست بہار میں ہونے والے انتخابات میں مسلم ووٹر کو خوفزدہ کرنا ہے جو اِنتخابات میں فیصلہ کن اثرات ڈالنے کی پوزیشن میںہیں۔ بہار، یوپی کے بعد بھارت کی دوسری بڑی ریاست ہے جہاں بی جے پی کے خلاف ایک مضبوط انتخابی اتحاد قائم ہو چکا ہے جسکے مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اگر اِس ریاست میں اپوزیشن کامیاب ہو جاتی ہے، تو نریندرمودی کیلئے اقتدار میں رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ پہلگام میں دہشت گردی کرانے کا دوسرا بڑا مقصد عالمی اداروں کی توجہ اُن مظالم سے ہٹانا ہے جو مودی سرکاری کشمیریوں پر ڈھا رہی ہے۔ اِن مظالم کے علاہ سب سے بڑا ستم یہ ڈھایا گیا ہے کہ بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 میں ترمیم کر کے ریاست کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کر کے اُسے بھارت کا ایک صوبہ بنا دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کو اَقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے غیرمسلم کشمیری بسائے جا رہے ہیں۔ اِس ناانصافی پر کشمیری مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ اب مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کا جو ڈراما رچایا گیا ہے، اُسکے اثرات بھارت کے خلاف مرتب ہو رہے ہیں۔ پہلی بار برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر کے مسئلے پر باقاعدہ بحث ہوئی ہے اور اِس کا حل تلاش کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی قدرے ہلچل محسوس کی جا رہی ہے۔

پہلگام دہشت گردی کا سب سے بڑا مقصد پاکسان کو ایک غیرذمےدار اَور دَہشت گرد رِیاست کے طور پر پیش کر کے سندھ طاس معاہدے سے باہر آ جانا اور پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال کی گراؤنڈ تیار کرنا ہے۔ اِس کام کیلئےاُس دن کا انتخاب کیا گیا جب امریکی نائب صدر چار روزہ دَورے پر بھارت آئے ہوئے تھے اور نریندرمودی سعودی عرب کے دورے پر تھا۔ اُسے اپنا دورہ مختصر کر کے واپس نئی دہلی آنا پڑا۔ اِس پوری کارروائی کا مقصد سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان پر یہ واضح کرنا تھا کہ پاکستان پورے خطے میں دہشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہے اور اِسے سختی سے روکنا ازبس ضروری ہو گیا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس قدر مذموم اور خطرناک مقاصد کے حصول کی خاطر نریندرمودی نے جو منصوبہ بندی کی، وہ حددرجہ ناقص ثابت ہوئی۔ عالمی رائےعامہ نے بھارت کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور اِس کے دوست بھی تاخیر کے بغیر جنگی سازوسامان پہنچانے لگے۔ چین، روس، سعودی عرب، قطر، امارات اور ترکیہ نے پاکستان کے حق میں بیان دیے اور اِیران نے اپنے آپ کو ثالثی کیلئے پیش کر دیا۔ اِن جملہ معاملات میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کیلئے سب سے اہم ہے جسے بھارت نے فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔ یہ معاہدہ عالمی بینک کی ضمانت پر 1960ء میں ہوا تھا اور اَمریکہ نے کلیدی کردار اَدا کیا تھا۔ پاکستان کے سپہ سالار جنرل سیّد عاصم منیر نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اعلان کیا کہ پانی ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر بھارت نے اِسے بند کیا یا دریاؤں کا رُخ موڑنے کی حماقت کی، تو ہم اِسے اعلانِ جنگ سمجھیں گے اور پوری قوت سے اُس کا دفاع کریں گے۔ ہمارے وزیرِدفاع خواجہ محمد آصف نے بھی صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اگر ہمیں اپنا وجود خطرے میں محسوس ہوا، تو ہم ایٹمی ہتھیار اِستعمال کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے۔ بلاشبہ قومی عزم کا بروقت اظہار ضروری ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری مسلح افواج دفاعِ وطن کیلئے پوری طرح مستعد ہیں اور بھارت کسی مہم جوئی کی حماقت نہیں کرے گا۔ اِس وقت اصل ضرورت اِس خطے کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ اِس کیلئے ہمیں سفارت کاری کو غیرمعمولی اہمیت دینا ہو گی۔ اِس کیلئے قابل افراد کی ایک بہت بڑی ٹیم تیار کرنا ہو گی جسکے پاس بھارت کی تباہ کاریوں کا ڈوزیئر (Dozier) موجود ہو اَور جو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر دنیا کے تمام اہم دارالحکومتوں میں پہنچ جائے اور دَانش وروں سے مل کر ایک عالمی رائےعامہ منظم کرے۔ اِس عالمی تحریک نے فرانسیسی مفکر تھارپر کی قیادت میں امریکہ کو ویت نام سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔

تازہ ترین