حالیہ دنوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ایک اہم سوال سامنے آتا ہےکہ کیا بھارت پاکستان پر براہ راست حملہ کرنے کی صلاحیت، ہمت یا جواز رکھتا ہے؟ جب انڈیا کے اندر سے ہی بھارتی جنگی جنون کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور مہا بھارت کے خواب یا انہونی خواہش کو بھول کر امن کا راستہ اختیار کرنے کے مشورے دئیے جارہے ہیں لیکن مودی سرکار دنیا کو ایک اشارے پر تسخیر کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے اور بھارت میں مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کی نسل کشی کرکے مہا بھارت کے خواب کی تکمیل کی کوششوں میں ہے۔لیکن نریندر مودی کی بدنیتی اور بزدلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے فالس فلیگنگ کے ساتھ ہی دفاعی حکمت عملی کا آغاز کردیا اور خودساختہ اور بے بنیاد ڈرامے کے اجرا کے ساتھ اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت پیش کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کی، یہاں تک کہ پاکستان کی جانب سے غیر جانبدار تحقیقات کی بجائے لاحاصل بحث شروع کردی اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑا-اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مودی سرکار ریاستی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اقلیتوں کی نسل کشی اعلانیہ طور پر کر رہی ہے اور مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی اب عالمی سطح پر بھی محسوس کی جارہی ہے-تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں، لیکن ہر بار تنازع ایک محدود دائرے میں رہا۔ آج کی صورتحال ماضی سے یکسر مختلف ہے؛ دونوں ممالک ایٹمی طاقت سے لیس ہیں اور جنگ کی کوئی بھی صورت تباہ کن نتائج پیدا کرسکتی ہے۔عسکری ماہرین کے مطابق بھارت اور پاکستان کی فوجی طاقت کا موازنہ بظاہر بھارت کے حق میں نظر آتا ہے۔ بھارت کے پاس 14لاکھ سے زائد فعال فوجی، 4000 سے زیادہ ٹینک، اور 2000کے قریب جنگی طیارے موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان کی فعال فوج کی تعداد تقریباً 6لاکھ ہے، ٹینکوں کی تعداد تقریباً 2500اور جنگی طیارے 900کے قریب ہیں۔تاہم محض تعداد پر مبنی تجزیہ سطحی ہوگا۔
پاکستان کی فوج کو پیشہ ورانہ مہارت، جنگی تجربہ اور موثر دفاعی حکمت عملی میں برتری حاصل ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، جس کا بھارت بھی اعتراف کرتا ہے، ایک اہم رکاوٹ ہے جو بھارت کو کسی بڑے فوجی اقدام سے روکتی ہے۔لیکن دنیا کے ماہر جنگجوؤں کا ماننا کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اس کا انحصار ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کی بہتر جنگی حکمت عملی پر ہوتا-معروف عسکری تجزیہ کار ڈاکٹر کرسٹین فیئر کا کہنا ہے کہ’’پاکستان کا نیوکلیئر ڈیٹرنس بھارت کو کسی بھی مکمل جنگی اقدام سے باز رکھتا ہے۔ بھارت کے پاس محدود سرجیکل اسٹرائیکس کے آپشنز ضرور ہیں، لیکن مکمل جنگ چھیڑنے کا مطلب پورے خطے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا ہوگا۔‘‘اسی طرح پاکستانی دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ’’بھارت کی موجودہ سیاسی قیادت جارحانہ بیانات ضرور دیتی ہے، مگر حقیقت میں زمینی حقائق اور پاکستان کی فوری جواب دینے کی صلاحیت بھارت کو روکے ہوئے ہے۔‘‘ جواباً بھارت کی جانب سے فالس فلیگنگ بچگانہ حرکت کے نتیجے میں سنجیدہ ممالک کی اکثریت خطے میں دھونس دھاندلی سے غلبہ حاصل کرنے بھارتی عزائم سے آگاہ ہوچکی ہے اور بھارت کی جانب سے خطے میں نفرتیں پھیلانے اور جنگی کیفیات کو ہوا دینے کے حق میں نہیں، ایٹمی طاقت کے حامل ممالک کے درمیان جنگ کے مضمرات سے آگاہ سنجیدہ ممالک باہمی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں-جبکہ موجودہ عالمی حالات میں کسی بڑی جنگ کے اقتصادی اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں ممالک اقتصادی دباؤ، عالمی ساکھ اور بین الاقوامی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہیں۔ کسی بھی بڑے تصادم کی صورت میں بھارت اور پاکستان دونوں عالمی برادری کی سخت تنقید اور پابندیوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ عسکری طاقت کے عددی فرق کے باوجود بھارت کے لیے پاکستان پر کھلا حملہ کرنا آسان نہیں۔ نیوکلیئر ڈیٹرنس، عالمی دباؤ، اور خطے کی نازک صورتحال ایسی جنگ کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ مستقبل میں کشیدگی کا خطرہ بہرحال موجود ہے، لیکن براہ راست جنگ کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں۔بھارتی میڈیا کو یہ ثابت کرنے کی بجائے کہ امریکہ کے نائب صدر ایسے میں دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ سفارتی ذرائع اور مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات حل کریں تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔ایک بھارتی رکن پارلیمنٹ کی وارننگ ہے کہ اگر پاکستانی فوج لڑنے کے لئے چل پڑی تو انہیں روکنے کے لئے آپ کا سسٹم فیل ہو جائے گا-یہ وہ مضبوط لوگ ہیں جنہوں بھارت کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں لیکن پیچھے نہیں ہٹے-