• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی طرف سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے نے پوری قوم کو متحد کر دیا ہے۔ ہر طبقہ اور شخص دفاع وطن کیلئے اپنی بہادر افواج کے ساتھ شانہ بشانہ ہے۔ اس بحران کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ طویل عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار سیاسی جماعتیں بھی قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے تحفظ اور دفاع کیلئے یک زبان ہیں اور وقتی طور پر ہی سہی لیکن انہوں نے ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستانی قوم نے ہمیشہ اس طرح کے بحران میں اپنے اتحاد اور یکجہتی سے دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنایا ہے۔ اس وقت بھی کوئی شخص بھارت سے مرعوب نظر نہیں آتا۔ اس اعتماد کی بنیادی وجہ ہماری مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور پاکستان کا مسلمہ ایٹمی قوت ہونا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس قومی جذبے اور کوششوں سے ہم نے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا ہے اگر اسی جذبے سے ملک کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے بھی سب مل کر کام کریں تو کامیابی یقینی ہے۔ ملک کا معاشی استحکام اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج کے دور میں صرف دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے سے کوئی قوم اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ہے بلکہ ہمسائیوں اور دوست ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام عالم سے برابری کی سطح پر تعلقات کیلئے معاشی خود مختاری انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارا وطن دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ناقابلِ تسخیر دفاع کیلئے معیشت کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ حال ہی میں احتجاج کے باعث سندھ میں سڑکوں کی کئی روز تک جاری رہنے والی بندش بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے معاشی سرگرمیوں کو تختہ مشق بنانے کی روش تبدیل نہ کی تو ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئےکی جانے والی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہونگی بلکہ اس سے الٹا عالمی سطح پر پاکستان سے متعلق بے یقینی میں اضافہ ہو گا۔ اس کالم میں پہلے بھی متعدد مرتبہ یہ نشاندہی کی جا چکی ہے کہ اگر ہمیں ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کرنی ہے تو ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر ترقی دینے کیلئے دیرپا اور ٹھوس اقدامات کریں۔ اس حوالے سے سیاسی قیادت کو سب سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو گا تو ہمیں اپنے شہریوں کی زندگیاں بہتر بنانےکیلئے کسی عالمی مالیاتی ادارے یا دوست ملک سے قرض یا امداد کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی۔ اسکے برعکس اگر ہماری سیاسی قیادت ماضی کی طرح اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئےایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہتی ہے تو اس سے ملک اور عام آدمی کا کوئی بھلا نہیں ہو گا۔ موجودہ حالات نے ہمیں یہ سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ دفاع کی طرح معیشت کے شعبے کو بھی مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھیں اور متفقہ معاشی ایجنڈا تشکیل دیں۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف متعدد مرتبہ سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت پر دستخط کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ پیشکش اس وقت کی تھی جب وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ اسی طرح صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ملک کو درپیش معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے مشترکہ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت پر متعدد مرتبہ زور دے چکے ہیں۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی اس حوالے سے آج تک کوئی بنیادی اختلاف سامنے نہیں آیا۔ اس لئے یہ بہترین وقت ہے کہ وزیر اعظم تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایک میز پر اکٹھا کریں۔ اس سے جہاں دفاع پاکستان کیلئے قومی یکجہتی کا اظہار ہو گا وہیں میثاق معیشت پر دستخط سے دنیا کو بھی مثبت پیغام جائیگا۔ اس سے ناصرف جنگ کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ قومی سطح پر سیاسی درجہ حرارت بھی کم ہو گا۔ اس سلسلے میں ایوان ہائے صنعت و تجارت اور تمام بڑی کاروباری و صنعتی تنظیموں کے نمائندوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے بزنس کمیونٹی اپنی تجاویز پر مشتمل روڈ میپ بھی تشکیل دے سکتی ہے تاکہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے مطابق معاشی اہداف اور انکے حصول کا طریقہ کار طے کر سکیں۔ اس طرح ایک ایسی متفقہ قومی دستاویز تیار کی جا سکتی ہے جسے پارلیمنٹ کے ذریعے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے اٹھارویں ترمیم کی طرح آئین کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی اقدام ہو گا جس پر ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں یاد رکھیں گی اور موجودہ سیاسی قیادت کا نام بھی تاریخ میں امر ہو جائے گا کہ انہوں نے قومی تقاضوں کا ادارک کرتے ہوئے مستقبل کیلئے ایک ایسا لائحہ عمل یا طریقہ کار طے کر دیا ہے جس پر چل کر پاکستان کے معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ملک میں نئے سیاسی کلچر کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہو گا اور امید کی جا سکتی ہے کہ اسکی بدولت ہماری سیاسی جماعتوں میں وہ برداشت اور رواداری فروغ پائیگی جو جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔

تازہ ترین