• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 10مئی سے ایک جشن کا سماں ہے۔ نریندرمودی جو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہا تھا اور اَپنے ہدف تک پہنچنے کیلئے سالہاسال سے جنگی تیاریوں میں مصروف تھا، 10مئی کو اُس کا خواب چکناچُور ہو گیا۔ اُس نے 22؍اپریل کو ایک خونیں ڈرامہ رچایا جس میں مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے سیاحتی مقام پر 26 ہندو سیاح تہ تیغ کر دیے گئے اور گجرات کے قصاب نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہاں سے دہشت گرد آئے اور اُنہوں نے چُن چُن کر 26 ہندو سیاح موت کے گھاٹ اتار دِیے۔ بھارتی میڈیا نے عالمی حمایت حاصل کرنے کیلئے بہت واویلا مچایا۔ پاکستان نے غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی تجویز پیش کی جس پر بھارتی قیادت نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اُس کی طرف سے تمام تر الزام تراشیوں، دھمکیوں اور زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود پاکستان نے یہ موقف اپنایا کہ وہ جنگ میں پہل نہیں کرے گا، مگر اگر بھارت نے حملہ کیا، تو اُس کا دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ بھارت نے آپریشن سندور کا اعلان کر دیا۔ اِس کے جواب میں پاکستان نے آپریشن بُنْيَان مَّرْصُوص کا اعلان کیا جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید کا حصول تھا۔

6 ؍اور 7؍مئی کی درمیانی رات بھارت نے جنگ چھیڑ دی۔ پاکستان نے غیرمعمولی صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور تیسرے روز بھارت کی ایسی درگت بنائی کہ اُسے سیزفائر کیلئے امریکہ کی منت سماجت کرنا پڑی۔ پاکستان کو زبردست سفارتی، سیاسی اور جنگی فتح بفضلِ خدا حاصل ہوئی۔ اِس فتح مبین سے ایک عظیم انقلاب جنم لے رہا ہے جو تاریخ کا رُخ موڑ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس تاریخی فتح نے چین اور پاکستان کو عالمی قیادت کے مرتبے پر فائز کر دیا ہے جبکہ مغربی اقوام اِس وقت شدید صدمے سے دوچار ہیں۔ ایک مدت سے وہ جنگی طیاروں، ٹینکوں اور ڈرونز کی ٹیکنالوجی میں بہت آگے تھیں اور اُن کی تیارکردہ جنگی مصنوعات کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہیں۔ پاکستان نے ایک ہلّے میں فرانس کے ناقابلِ تسخیر طیارے رافیل، اسرائیل کے ڈرونز اور رُوس کے دیوہیکل ڈیفنس سسٹم ناکارہ بنا دیے اور چین کی ٹیکنالوجی غالب آ گئی جسے پاکستان کی تربیت یافتہ آرمڈ فورس نے کمال مہارت سے استعمال کیا اور پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ اِس چند روزہ جنگ کے دوران جو عظیم الشان تبدیلی رونما ہوئی، اُس کا احساس سب سے پہلے صدر ٹرمپ کو ہوا۔ اُس نے سعودی عرب اور ترکیہ کے ذریعے سیزفائر کی بات چلائی اور خود سیزفائر کا اعلان کیا جس سے ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ اُس نے یہ بھی محسوس کیا کہ مغرب کی ٹیکنالوجی پٹ گئی ہے اور ایک نیا منظرنامہ طلوع ہونے والا ہے۔ اِس موقع پر امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا اصل سبب مسئلۂ کشمیر ہے جسے فوری طور پر حل ہونا چاہیے اور مَیں ثالثی کا کردار اَدا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اِس اعلان سے مسئلۂ کشمیر ازسرِنو زندہ ہو گیا ہے جو پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے۔

میرا وَجدان یہ بھی کہتا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست بھی جلد قائم ہو جائے گی۔ اسرائیل جو کبھی ایک ناقابلِ شکست طاقت کی حیثیت کا مالک تھا، اُس کے ڈرون پاکستان میں خزاںرسیدہ پتوں کی طرح گرتے رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی صدر اِسرائیل سے فاصلہ پیدا کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اِسرائیل سے بالابالا ہی حوثیوں سے معاہدہ کر لیا ہے، چنانچہ حوثی اسرائیل پر پے در پے حملے کر رہے ہیں۔

تین روزہ جنگ میں نریندرمودی کی عیاری، مکاری اور عہدشکنی کو عبرت ناک شکست ہوئی ہے اور وُہ نفرت، غصّے اور تعصب کی آگ میں جل رہا ہے اور پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ کاری ضرب تو آر ایس ایس پر لگی ہے جو خدانخواستہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھن میں پاگل ہوئی جا رہی ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں اُمید کی کرن یہ پیدا ہوئی ہے کہ بھارت میں نریندرمودی کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور اُس کا نام ’’سرینڈرمودی‘‘ پڑ گیا ہے۔ ہمیں اُن عناصر کے ساتھ رابطے بڑھانے چاہئیں جو اُن کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتے اور جمہوری اقدار کو فوقیت دیتے ہیں۔

بھارتی قیادت کے غلط اندازوں کے نتیجے میں جو اِنقلاب ظہورپذیر ہو رہا ہے، اُس کی روشنی میں پاکستان کو بھی اپنے داخلی معاملات کا جائزہ لینا اور خارجی حکمتِ عملی میں استحکام پیدا کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو عالمی قیادت پر سرفراز کیا ہے، تو ہمیں اِس کے تقاضے پورا کرنے کے لیے اپنے اندر بہت بڑی تبدیلی لانا ہو گی۔ سب سے پہلے فرسودہ تصوّرات اور پرانے تعصبات کو خیرباد کہنا اور خوداِعتمادی اور خوش امیدی کو فروغ دینا ہو گا۔ ماضی میں بعض حلقے فوج کو ہدفِ تنقید بناتے اور اُس کی تنصیبات پر حملے کرتے آئے ہیں۔ اِسی ذہنیت کی کوکھ سے 9 مئی نے جنم لیا تھا جبکہ دو سال بعد 10 مئی کو ہماری مسلح افواج قوم کی آنکھوں کا تارا بن کر اُبھری ہیں۔ میرے وہ بھائی جو سیدھے راستے سے بھٹک گئے تھے، اُنہیں کھلے دل سے اپنی قوم اور اَپنی مسلح افواج سے معافی مانگنی چاہیے۔ اِس سے مصالحت اور مفاہمت کے دروازے کھلتے جائیں گے اور دِلوں کی رنجشیں دور ہوتی جائیں گی۔ اِس کے علاوہ ہماری قوم کے اندر وُہی قوتِ ایمانی پیدا کرنا ہو گی جس کا مظاہرہ ہماری فوج کے سپہ سالار جنرل سیّد عاصم منیر نے جنگ کے دوران کیا اور پوری فوجی مشنری کو اِسلام کے نور سے منور کر دیا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ہمیں چین کے ساتھ دوستی کے رشتے مزید مضبوط کرنا ہوں گے کیونکہ اُس نے مشکل کے وقت پاکستان کو ہر وہ چیز فراہم کی جس نے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا۔ ہم پر لازم آتا ہے کہ پاکستان میں چینی مفادات کی پوری پوری حفاظت کریں تاکہ شکایت کا کوئی موقع پیدا نہ ہونے پائے۔ اِسی طرح سعودی عرب، ترکیہ، ایران اور پورے عالمِ اسلام نے پاکستان کے موقف کی پُرزور حمایت کی ہے۔ اُن کے ساتھ مفاہمت کا دائرہ مزید وسیع کرنا چاہیے، کیونکہ بھارت سے جنگ مستقبل میں سفارت کاری کی سطح پر لڑی جائے گی۔

فتح مبین پر پوری قوم کو مبارکباد اَور شہدا کے لیے ہزاروں سلامِ عقیدت!

تازہ ترین