پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں یہ حقیقت نکھر کر سامنے آ گئی ہے کہ کون ریاست دشمنی میں نریندر مودی کا پیروکار ہے اور کون اس ملک کی بقاء اور تحفظ کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔لیکن عوام کی واضح اکثریت اس بات پر قائل ہے کہ تحریک انصاف بھارت سے کہیں زیادہ پاکستان کے لئے خطرناک ہے جو اس نظریہ پر قائم ہے کہ ’’عمران نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ اور وہ اعلانیہ عمران خان پر پاکستان کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے جس کا اندازہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے دئیے جانے والے بیانات یا تمسخر سے لگایا جاسکتا ہے۔علیمہ خان جن کا تعلق تحریک انصاف کے اس قبیلہ سے ہے جو ریاست اور ریاستی اداروں کی بہتر کارکردگی کو بھی منفی انداز میں پیش کر کے "نظریۂ عمرانی" کو تقویت دینے اور اسے ریاست دشمنی کے طور پر پیش کرنے پر یقین رکھتی ہیں- یہ وہی علیمہ خان ہیں جن کے بارے تحقیقاتی اداروں نے انکشاف کیا ہے کہ علیمہ خان عمران خان اور بیرون ملک متحرک ریاست دشمن بلوگرز کے درمیان رابطہ ہیں اور عمران خان کے ریاست دشمن بیانیے ان ملک دشمن عناصر کو مہیا کرتی ہیں۔حالیہ پاک بھارت جنگ کے ابتدائی مرحلے میں علیمہ خان کا جھکاؤ بھارتی فوج کی جانب دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے جب انہوں نے ان جھڑپوں میں پاکستان اور بھارت کی عسکری طاقت کا موازنہ کرتے ہوئے اپنی خواہش اور پی-ٹی-آئی کے بیانیے کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’بھارتی فوج آئے گی اور انہیں تھپڑ مارے گی اور بم پھینکے گی لیکن یہ خاموش رہیں کیونکہ ان میں جواب دینے کی جرات نہیں‘‘ ، پھر دنیا نے پی-ٹی-آئی اور بھارت کا منہ کالا ہوتے دیکھا اور انہیں وقتی طور پر اپنا ریاست دشمن بیانیہ تبدیل کرنا پڑا اور منافقانہ خاموشی اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کی لیکن جنگ کے واضع نتائج سامنے آنے پراڈیالہ جیل سے ایک نیا بیانیہ نکلا اور علیمہ خان کے ذریعے بیان کیا گیا کہ پاک بھارت چھڑپیں ڈرامہ ہیں جو مودی اور پاکستان کی مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت رچایا جارہا ہے لیکن یہ بیانیہ ابتداء میں ہی پٹ گیا کیونکہ اسی قسم کی منصوبہ بندی کا اظہار بھارتی ٹی-وی چینلوں پر بھی ہو رہا تھا اور 1971میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کی تحریک کے دوران مکتی باہنی کے کردار سے یہ تاثر پیدا کرکے کہ بنگلہ دیش کے عوام بھارتی فوج کے لئے راستے ہموار کر رہے تھے جسے، مثال بنا کر پاکستان کا نام دنیا کے نقشے سے مٹانے کی بھارتی منصوبے کے پیش نظر شروع کی جانے جنگ کے پیچھے بھی عمران خان کی مقبولیت اور اس کے باغی جتھوں کو استعمال کرنا بنیادی عنصر تھا جس کے تحت بھارتی سوشل میڈیا کے ذریعے یوتھیوں کو یہ پیغام دیتے رہے کہ بھارتی فوجیں جونہی پاکستان میں داخل ہوں، تحریک انصاف کے کارکن ان کی سپورٹ کے لئے پہنچ جائیں اور تاثر یہی دیا کہ بھارت اور پی-ٹی-آئی پاکستان کو تسخیر کرنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔
بدنصیب ہے پی-ٹی-آئی کی قیادت اور کارکن جو اپنی دھرتی کو بچانے اور ماں کی عزت و ناموس کو اپنے ذاتی مفادات سے مشروط کر کے ملک دشمنوں اور دہشتگردوں کی صفوں میں کھڑے نظر آتے ہیں کیونکہان کے دل و دماغ پر انڈیا، اسرائیل اور بلوچستان لبریشن آرمی کے علاوہ ان قوتوں یا عناصر کا قبضہ ہے جو کسی نہ کسی طور پاکستان کا نام دنیا کے نقشے سے مٹانے کے خواب دیکھتے ہیں۔پی-ٹی-آئی قیادت کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے یہ انڈیا کی شکست سے ناخوش اور ناراض ہے۔یہ قیادت جو خود کو ریاست دشمن کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہے، قوم کو تقسیم کرنے کی آخری کوشش بری اور فضائی افواج کے درمیان خلاء پیدا کرنے کی سازش ہے لیکن ابتداء میں ہی انہیں مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا، وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پی-ٹی-آئی پاک بھارت جنگ میں پاکستان افواج کی کارکردگی اور اس میں چیف آف آرمی سٹاف کے عملی کردار کے نتیجے میں پی-ٹی-آئی جو ریاست دشمن پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی بڑی تعداد نے ریاست دشمن نظریات کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔اس سارے عمل کے دوران بانی پی-ٹی-آئی کی جانب سے پاکستان دشمن ایجنڈے کے تحت ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور عسکری قوت کو کمزور کرنے کے لئے پاکستان کی فوج کو دہشتگرد قرار دلوا کر دنیا بھر میں بدنام کی سازشیں شامل ہیں، دوسری طرف بھارت نے بھی عمران خان کے پاکستان دشمن رویے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پی-ٹی-آئی کو انگیج رکھا جس نے بھارتی ایجنسی کے اشارے پر پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔