• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مدت سے تاریخ پیدائش غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکی ہے، کیونکہ قسمت کا حال بتانے والے نجومی سب سے پہلے تاریخ پیدائش معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ستارہ شناس محترمہ اپنی گفتگو میں اِس واقعے کا ذکر کرتی ہیں کہ میرے بااعتماد دَوستوں نے لیفٹیننٹ جنرل سیّد عاصم منیر کی تاریخ پیدائش فراہم کی تھی۔ مَیں نے اُس کی بنیاد پہ اُن کا زائچہ بنایا اور جب اُن سے ملاقات ہوئی، تو مَیں نے اُنھیں آرمی چیف بننے کی خوشخبری دی۔ اُنھوں نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے ایک دو ماہ پہلے مَیں ریٹائرڈ ہو جاؤں گا، اِس لیے مجھے تمہاری پیشین گوئی درست معلوم نہیں ہوتی۔ مجھے اپنے زائچے کی صحت پر پورا یقین تھا، اِس لیے مَیں نے اُنھیں دوسری بار مبارکباد پیش کی اور اَللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوئے۔ مجھے سامعہ خاں کی مستقبل بینی پر بہت رشک آیا۔ اُن کے ہاں بلا کا اعتماد بھی ہے اور غضب کا انکسار بھی۔ وہ کہتی ہیں کہ علمِ غیب تو اَللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہم جو ستاروں کی چالوں کا علم حاصل کرتے ہیں، وہ نہایت محدود ہوتا ہے، البتہ اگر اُس محدود علم کو دانشمندی سے استعمال کیا جائے، تو آنے والے حالات کا ادراک حاصل ہو جاتا ہے۔

انگریزوں کے عہد میں تاریخ پیدائش کے فوری اندراج کا سرے سے کوئی بندوبست نہیں تھا، اِس لیے ہمارے عظیم قائد کی تاریخ پیدائش کے بارے میں محققین ایک سے زائد تاریخ ِپیدائش دریافت کر چکے جن میں برسوں کا اختلاف ہے۔ مَیں جو قوم کا ایک ادنیٰ خادم ہوں، میری تاریخ پیدائش کے ساتھ بھی ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ۱۹۴۷ء کے اوائل میں ہمیں میٹرک امتحان کا فارم پُر کرنا تھا۔ میرے ایک مشفق استاد حافظ نعمت اللہ نے مجھ سے کہا کہ تم اپنے کوائف جمع کر لو، تو مَیں تمہارا فارم پُر کر دوں گا۔ مَیں نے اپنا نام الطاف حسن راہبر لکھا اور جائے پیدائش کے خانے میں ہابڑی درج کیا۔ تاریخ پیدائش فروری ۱۹۳۱ء لکھی جو میرے بڑے بھائی اعجازحسن کی تاریخ پیدائش کی بنیاد پر نکالی گئی تھی۔ استاد محترم شاید میرا لکھا ہوا ٹھیک طور پر پڑھ نہیں سکے اور اُنھوں نے میرا نام الطاف حسن راہِ طور دَرج کیا۔ جائے پیدائش کے بارے میں اُن کی رائے یہ تھی کہ ہابڑی ضلع کرنال کی ایک چھوٹی سی بستی ہے جسے کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ اگر تحقیقات کا مرحلہ آ گیا، تو بہت دشواری پیش آئے گی۔ ہندو لوگ بڑے چالاک اور مکار ہیں اور وُہ کسی وقت بھی کوئی مسئلہ کھڑا کر سکتے ہیں۔ تاریخ پیدائش اُنھوں نے ۳ مارچ ۱۹۳۲ء درج کی کہ اِس طرح تم دسویں پندرہ سال کی عمر میں پاس کر لو گے اور تمہارے لیے آگے بڑھنے کیلئے بڑا وَقت ہو گا۔ اُن دنوں میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی کے زیرِاہتمام لیا جاتا تھا۔ امتحان دینے کے بعد پنجاب کے مختلف علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے جس کے باعث امتحان کا نتیجہ جون کے آغاز میں سنایا گیا۔ اُس کے چند ہی ہفتوں بعد پاکستان وجود میں آ گیا اور ہماری بستی میں مہاجر کیمپ قائم کر دیا گیا جس سے باہر ہم نہیں جا سکتے تھے اور نیپالی فوج ہماری حفاظت پر مامور تھی۔ ہم نومبر میں ریل کے ذریعے پاکستان پہنچے اور ہارون آباد سے ہوتے ہوئے لاہور آ گئے جہاں ہمارے بڑے بھائی جناب گُل حسن چوبرجی کوارٹرز میں مقیم تھے۔ اُنھوں نے حصار سے پاکستان کا آپشن دیا تھا اور اُن کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا تھا۔ مَیں نے اُن سے ٹیلی گرافی کا ہنر سیکھا۔ اُس وقت میری عمر بمشکل سولہ سال تھی جبکہ حکومت کی ملازمت حاصل کرنے کے لیے کم از کم عمر اٹھارہ سال درکار تھی۔ اُن دنوں محکمہ انہار میں سگنیلر کی اسا میاں بڑی تعداد میں خالی پڑی تھیں کیونکہ ہندو اَور سکھ پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے تھے، چنانچہ مجھے سولہ سال کی عمر ہی میں سرکاری ملازمت مل گئی۔ سگنیلر کی ملازمت مجھے بہت راس آئی۔ مَیں نے دس بارہ سال ملازمت کی اور جب اِستعفیٰ دیا، تو مَیں ادیب فاضل کے علاوہ پولیٹیکل سائنس اور علومِ اسلامیہ میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر چکا تھا اور پولیٹیکل سائنس میں پوری یونیورسٹی میں اوّل آیا تھا۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ذات ہم دونوں بھائیوں کو کوچۂ صحافت میں لے آئی اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی قیادت میں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کا اجرا عمل میں آیا جسے قدرت نے بڑی مقبولیت عطا کی۔

ابھی چند ہفتے پہلے میرے محترم دوست جناب پروفیسر خورشید احمد جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اُن کی شخصیت کے بارے میں جو مضامین لکھے گئے، اُن میں اُن کی تاریخ پیدائش ۲۳ مارچ ۱۹۳۲ء درج تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ میری تاریخ پیدائش اُن کی تاریخ پیدائش سے بہت قریب ہے۔ تب اچانک میرے دل میں اپنی حتمی تاریخ پیدائش کا سراغ لگانے کا احساس شدت اختیار کر گیا۔ مَیں نے اپنے حافظے پر زور دِیا، تو مجھے اپنے برادرِ مکرم جناب گُل حسن کے ساتھ گفتگو کا ایک مرحلہ یاد آیا۔ مَیں نے اُن سے پوچھا تھا کیا آپ کو میری تاریخ پیدائش یاد ہے۔ اُنھوں نے فرمایا تھا جب ہم دسمبر ۱۹۳۰ء میں ہابڑی سے سرسہ منتقل ہوئے، تو تم کوئی چھ ماہ کے تھے۔ اِس اعتبار سے تمہاری پیدائش کا مہینہ جون ۱۹۳۰ء بنتا ہے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ جون کی ۳ تاریخ تھی۔ مَیں اُن کی باتیں سُن کر بہت خوش ہوا کیونکہ ۳ جون ۱۹۴۷ء وہ تاریخ ہے جب وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو پر تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے منصوبے کا اعلان کیا تھا اور پنڈت جواہر لال نہرو، قائدِ اعظم محمد علی جناح اور سردار بلدیو سنگھ نے اِس اعلان کی تائید کی تھی۔ مَیں نے یہ مکمل کارروائی اپنے بچپن کے دوست محمد یقین کے گھر میں سنی تھی اور ہمارے دل خوشی سے بلیوں اچھل رہے تھے کیونکہ اندھیروں کو چیرتا ہوا خوشیوں سے معمور مستقبل طلوع ہونے والا تھا۔

اب جب میری تاریخ پیدائش کا تعین ہو گیا ہے، تو احباب میری ۹۵ویں سالگرہ منانے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مَیں اُنھیں سمجھا رہا ہوں کہ رسم و رِواج کی فسوںکاری میں کیا رکھا ہے۔ اِس دوران مجھے معلوم ہوا کہ پروفیسر خورشید احمد کی عمر دو سال کم لکھوائی گئی تھی اور یہ عجائبات ایک تاریخ رقم کر گئے ہیں۔

تازہ ترین