کراچی (ٹی وی رپورٹ)تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کوہستان کرپشن اسکینڈل میں تحریک انصاف کے لوگ ملوث ہیں جبکہ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق احمد غنی نے کہاہے کہ اس ملک کے ہر ادارے کے منہ پر کرپشن لگی ہے ۔کوئی صوبہ اور مرکز کرپشن سے بری الذمہ نہیں ہے۔ ایڈیٹر جنگ پشاور ارشد عزیز ملک نے جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ جب میں اسٹوری کررہا تھا تو مجھے بھی یقین نہیں آرہا تھا‘میں اسٹوری کرتے وقت پریشان تھا کہ کوہستان جیسے چھوٹے علاقے سے 40ارب روپے نکل رہے ہیں۔ جہاں بل بھی کوئی نہیں ہے سرکار کا کوئی کام بھی نہیں ہوا۔یہ دراصل ایک اکاؤنٹ ہے جو بنایا گیا ہے۔ جس میں تین ڈیپارٹمنٹ کے کنٹریکٹرز اپنی سیکورٹی جمع کراتے ہیں۔جب وہ کام مکمل کرتے ہیں تو روکی ہوئی رقم ادا کی جاتی ہے۔صوبے کا ایک ہی ہیڈ ہے اوراس میں تین ڈپارٹمنٹ ہیں۔ایری گیشن، سی ایم ڈبلیو ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ڈپارٹمنٹس کے کنٹریکٹر اسی کو استعمال کرتے ہیں۔کوہستان میں پہلے جعلی کمپنیاں، فرمز بنائی گئیں ۔وہاں پر ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفس ہوتا ہے جس میں زیادہ محکمہ خزانہ کے لوگ ہوتے ہیں انہوں نے اس کو منظور کیا۔وہاں ایک ہی سرکاری بینک ہے اس بینک سے یہ رقم نکلی۔اس کے بعد چوتھا آفس اکاؤنٹ جنرل کا ہے جس کو ایک ایک پائی کا روز معلوم چلتا ہے۔کس اکاؤنٹ میں کتنے پیسے آئے اور نکل گئے لیکن یہ تمام لوگ خاموش تھے۔ یہ تمام کے تمام اس میں ملوث تھے۔ 2019ء سے 2024 ء کے دوران40 ارب روپے نکل گئے۔ اس میں ملازمین اور افسران ملوث تھے۔ میں نے ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس چیک کئے تو ایک بندے کے اکاؤنٹ کے اندر ساڑھے4 ارب روپے موجود تھے۔جب مزید معلومات کی کہ کہ یہ بندہ کون ہے تو اس کا نام ممتاز تھا۔اس نے ممتاز کنسٹرکشن کے نام سے کمپنی بنائی تھی۔مجھے پتہ چلا کہ ممتاز تو ڈرائیورہے اور ڈمپر چلاتا ہے۔اس کا بھائی سی ایم ڈبلیو کے کلرک کے پاس ڈرائیور تھا۔