ہر قوم کے کچھ فیصلے تاریخ میں سنگِ میل بن جاتے ہیں، جو نہ صرف اُس وقت کے حالات کا جواب ہوتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ 28مئی 1998ء کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے ایک ایسا ہی فیصلہ کیا۔ یہ صرف چند دھماکے نہیں تھے، بلکہ ایک پیغام تھا کہ پاکستان اب نہ صرف ایک خودمختار ریاست ہے بلکہ اپنے دفاع کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔اُس دن وزیر ِاعظم میاں محمد نواز شریف نے قوم کی اجتماعی خواہش اور ملکی سلامتی کو مدِنظر رکھتے ہوئے چھ ایٹمی دھماکوں کا اعلان کیا۔ یہ دھماکے بھارت کی جانب سے کیے گئے پوکھران ایٹمی تجربات کا جواب تھے، مگر ان سے کہیں زیادہ واضح، مؤثر اور بامعنیٰ۔ دنیا حیران رہ گئی کہ ایک ترقی پذیر اسلامی ملک نے تمام تر عالمی دباؤ، معاشی پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود خودداری، غیرت اور جرأت کا مظاہرہ کیا۔
یہ فیصلہ محض سیاسی یا عسکری نہیں تھا، یہ ایک نظریاتی اعلان تھا کہ پاکستان صرف جغرافیائی حدود کا نام نہیں بلکہ ایک نظریے، ایمان، قربانی اور خود انحصاری کا مظہر ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر جب 2025ءکے مئی میں بھارت نے ایک بار پھر سرحدوں پر اشتعال انگیزی کی، تو پاکستان نے نہ صرف مؤثر جواب دیا بلکہ اپنی ایٹمی صلاحیت کی موجودگی کو ایک عملی طاقت کے طور پر منوایا۔
2025 ءکے ماہِ مئی میں بھارت کی جارحیت ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچی۔ لائن آف کنٹرول پر دراندازی، میزائلوں کی لانچنگ اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی۔ بھارت نے اپنے جدید ترین رافیل طیاروں، بیلسٹک میزائل سسٹمز، اور بری فوج کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن یہ 1998ءسے پہلے والا پاکستان نہیں تھا۔ اب ہمارے پاس ایک ناقابلِ تسخیر دفاعی نظام، تربیت یافتہ فوج اور قوم کے اندر ناقابلِ شکست عزم موجود تھا۔ پاکستان کی فضائیہ نے بروقت ردِعمل دیا، بھارتی طیارے چند ہی لمحوں میں مار گرائے گئے اور دشمن کے اہم عسکری مقامات کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔پاکستان نے اس دوران جو سب سے مؤثر حربہ اپنایا، وہ ’’دفاعی برتری‘‘ کو ’’جارحانہ دفاع‘‘ میں بدلنا تھا۔ زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائلوں کی ایک لہر نے بھارتی عسکری اہداف کو نشانہ بنایا۔ دشمن کے ریڈار، لانچنگ پیڈز اور اسلحہ ڈپو تباہ کر دیے گئے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے صرف چند گھنٹوں میں دشمن کی ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا منہ توڑ جواب دیا۔ اس پورے معرکے میں سب سے اہم کردار پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نے ادا کیا۔ دشمن کو معلوم تھا کہ پاکستان ایک ذمہ دار مگر جرأت مند ایٹمی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی طرف سے مکمل جنگ کی طرف بڑھنے کی کوئی ہمت نہ ہوئی۔ ہماری ڈیٹرنس پالیسی نے دشمن کے تمام جارحانہ عزائم کو خاک میں ملا دیا۔اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ 28 مئی 1998 ءکو کیے گئے فیصلے صرف اُس وقت کیلئے نہیں تھے، بلکہ یہ فیصلے آنے والے ہر بحران کے مقابلے کیلئے تھے۔ اگر آج پاکستان ایک مضبوط دفاعی پوزیشن پر کھڑا ہے تو اس کی بنیاد وہی ایٹمی دھماکے ہیں جنہیں ہم یومِ تکبیر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
مئی 2025ءکی جنگ نے ایک بار پھر پوری قوم کو متحد کر دیا۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں نے حب الوطنی کے جذبے کو نئی جِلا بخشی، میڈیا نے دشمن کی چالوں کو بے نقاب کیا، اور ہماری عسکری قیادت نے میدانِ عمل میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ اس جنگ میں پاکستان کی فتح صرف عسکری نہیں تھی، بلکہ سفارتی اور اخلاقی میدان میں بھی ہم سرخرو ہوئے۔ دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، جارحیت کا جواب دیا اور امن کا علم بلند کیا۔ یومِ تکبیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خودداری، قربانی اور قومی یکجہتی سے ہم ہر دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ مئی 2025ءکی جنگ اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ پاکستان اب ناقابلِ تسخیر ہے۔ دشمن کی کوئی بھی چال، کوئی بھی سازش اور کوئی بھی جارحیت ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔
آیئے، اس یومِ تکبیر پر عہد کریں کہ ہم نہ صرف اپنی عسکری طاقت کو محفوظ رکھیں گے، بلکہ اپنی داخلی یکجہتی، معیشت اور علم و تحقیق کو بھی مضبوط بنائیں گے۔ تاکہ دشمن کو ہمیشہ یہ پیغام ملتا رہے:
’’ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں‘‘