• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گنڈاپور کے ’’اہم پیغام‘‘ کے باوجود عمران خان نے مذاکرات کا راستہ چننے سے انکار کردیا

اسلام آباد :(انصار عباسی)…جس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور وفاقی حکومت کے درمیان ممکنہ طور پر اہم حلقوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کی امیدیں تیز ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی بجائے عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

باخبر ذرائع کے مطابق، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے حال ہی میں عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں سے کہا تھا کہ وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کیلئے ’’موزوں حلقوں‘‘ سے مثبت اشارہ ملا ہے، ان اشاروں کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بالواسطہ منظوری سے تعبیر کیا گیا۔

حالانکہ اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی حالیہ مہینوں کے دوران پی ٹی آئی کے ساتھ براہ راست رابطوں سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ تاہم، جب عمران خان کو یہ پیغام پہنچایا گیا تو انہوں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور اپنی پارٹی قیادت کو ہدایت کی کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کیلئے تیار رہیں۔ 

پارٹی کے اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان اس بات پر قائل ہیں کہ عوامی دباؤ سیاسی پیشرفت کیلئے مجبور کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ ممکنہ مذاکرات کے معاملے میں یہ اقدام حالیہ مہینوں کے دوران دوسرا بڑا جھٹکا ہیں۔ 

گزشتہ سال نومبر میں ایک کوشش اس وقت ناکام ہوئی تھی جب پی ٹی آئی کی قیادت، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے زیر اثر، نے اپنی ریلی سنگجیانی سے آگے اسلام آباد کے ڈی چوک تک لیجانے کا فیصلہ کیا تھا۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں ثالثوں نے فاصلہ اختیار کر لیا جبکہ دیگر فریقین کا موقف سخت ہوگیا وہ بھی اس وقت جبکہ فریقین مذاکرات کیلئے تیار تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ بیرسٹر گوہر نے وزیراعظم شہباز شریف کی قومی اسمبلی کے فلور پر مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینے کیلئے بتایا تھا کہ عمران خان نے اصولی منظوری دیدی ہے۔ 

یہ پیشکش پی ٹی آئی کے بھارت کے ساتھ حالیہ سرحدی کشیدگی کے دوران حکومت اور مسلح افواج کے ساتھ اتحاد کے نادر مظاہرے کی صورت میں سامنے آئی۔ اس کے باوجود، ایک ہفتے کے اندر ہی عمران خان نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں ایک غلط فہمی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا موقف بدل دیا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات ہوں گے، ورنہ نہیں۔ 

اندرونی بات چیت سے واقف ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ گنڈا پور نے پی ٹی آئی کی قیادت کو آگاہ کیا کہ بااثر پاور بروکرز کی جانب سے حکومتی سطح پر بات چیت آگے بڑھنے کا واضح اشارہ ملا ہے۔ گنڈا پور کے ساتھ جڑے رہنماؤں کی رائے ہے کہ حکومت کے ساتھ کسی بھی مفاہمت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی اور عمران خان کیلئے قانونی ریلیف کے ساتھ پارٹی کیلئے معمول کی سیاست میں آنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ 

تاہم، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے براہِ راست مذاکرات سے انکار کے بعد، اب توجہ امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کے وفد کی طرف مبذول ہو گئی ہے جو اس وقت پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ ڈیڈلاک ختم کرنے کیلئے اس وفد کے ذریعے بیک چینل مذاکرات کی غیر رسمی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ 

متعدد مرتبہ کی ناکامیوں کے باوجود، پی ٹی آئی کے بعض حلقوں میں کچھ امیدیں برقرار ہیں کہ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ لیکن عمران خان نے ایک مرتبہ پھر مذاکرات پر اسٹریٹ پاور کو فوقیت دے دی ہے جس سے ڈیڈلاک کے خاتمے کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ 

خیال کیا جاتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بجائے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کو ترجیح دینے سے پی ٹی آئی کو قیمت چکانا پڑ سکتی ہے اور 9 مئی کے کیسز یا پھر توشہ خانہ کیسز پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک ذریعے نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کیلئے بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنا ناممکن نظر آتا ہے، قانونی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور اس میں بہت وقت لگتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید