• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

28 ؍مئی 1998ءکو پاکستان نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کر کے اُمت مسلمہ کے دل جیت لیے تھے۔ تب سے 28 مئی کو "یومِ تکبیر" منایا جاتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی، حافظ نعیم الرحمان نے درست کہا کہ یومِ تکبیر کو ’’یومِ ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘‘ کے طور پر منایا جانا چاہئے، تائید کرتا ہوں۔

ڈاکٹر قدیر صاحب! قوم آپکی مجرم ہے، اگرچہ یہ جرم وطنی قیادت نے کیا ہے۔ جہاں ان دھماکوں کا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے، وہیں ذوالفقار علی بھٹو نے اس مشن کی بنیاد رکھی، جبکہ جنرل ضیاء الحق نے اسے عملی جامہ پہنایا اور غلام اسحاق خان نے 1975ءسے 1983ء(تکمیل) تک اس منصوبے کی سرپرستی کی۔ ڈاکٹر قدیرنے ایٹمی طاقت بناکر غیرمعمولی کارنامہ سر انجام دیا اور قائد اعظم کے پاکستان کو محفوظ بنایا۔حیف! اس قوم اور مملکت پر جو اپنے محسنوں کو فراموش کر دے۔ آج حکومتی جماعتیں، دیگر عہدیداران اپنی اپنی قیادت کو مبارک سلامت، حقی سچی کریڈٹ دے رہے ہیں، مجال ہے ڈاکٹر قدیر کا نام کہیں دکھائی دے۔ ’’مجاہدِ ملت‘‘ جنرل ضیاء الحق کا نام زبان پر لاتے ہی لُکنت، افسوس! جن سیاستدانوں کی سیاست کا آغاز اور آرائش و زیبائش جنرل ضیاء الحق کی مرہونِ منت رہی، ایٹمی ہتھیاروں کے تناظر میں ان کا نام لینے سے شرما رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ امر عمران خان کے دورِ حکومت میں سامنے آیا، جب ڈاکٹر قدیر خان وفات پا گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت قومی اعزاز کیساتھ اُنہیں فیصل مسجد میں تزک و احتشام سے سپردِ خاک کرتی۔ سانحہ کہ تضحیک آمیز انداز میں اُن کی تجہیز و تکفین ہوئی۔

بھارت میں ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو کسی خاص مقام یا تکریم سے نہیں نوازا گیا، مگر ڈاکٹر عبدالکلام عزت و احترام کیساتھ بطور قومی ہیرو ہمیشہ کیلئے زندہ تابندہ ہو گئے۔ 25جولائی 2002ءکو بھارت کے 11ویں جب صدر منتخب ہوئے تو اس سے قبل انہیں پدم بھوشن (1981ء)، پدم وبھوشن (1990ء) اور بھارت رتن (1997ء) جیسے اعلیٰ ترین شہری اعزازات سے نوازا جا چکا تھا۔

دوسری جانب، حقی سچی محسنِ وطن غریب الوطن ٹھہرے۔ محسن ِپاکستان! یہ قوم اس لائق نہیں ہی تھی کہ اسے محفوظ بنایا جاتا۔ آپ قوم کے محسن ہمارے دل و دماغ پر راج کرتے ہو اور ہمیشہ کیلئے امر ہو۔ چار دن کی جنگ 10 مئی سے قوم جیت کے نشے میں سرشار، نشہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ الحمدللہ! 4 روزہ جنگ میں کامیابی اور بھارت کی شکست، 10 مئی 2025ء سے مملکتِ خداداد نویں آسمان کو چھو چکی ہے۔ جس پاکستان کو آج دیکھ رہا ہوں، اس سے تعارف نہیں تھا۔ مملکت ہے کہ ’’مبارک سلامت‘‘ کے ماحول سے نکلنے کوتیار نہیں۔ میدانِ جنگ میں دھاک بٹھانے کے بعد سفارتی و اخلاقی محاذ پر پوری دنیا میں غیر معمولی پذیرائی ملی، ہمیں عادت نہ خُو، اللہ اس خوشی کو ابدی بنائے۔ بھارت کا غرور خاک میں مل چکا۔ اپنے ہی گھر میں منہ چھپانا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک جھوٹ کو آگے بڑھانے کیلئے درجنوں جھوٹ گھڑے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم مودی اور ’’گودی میڈیا‘‘ اپنی قوم کو دھوکا دینے میں کس حد تک کامیاب، میرا مسئلہ نہیں، بھارت کا دردِ سر ہے۔

مودی اپنے ملک میں سچ کی آوازیں دبانے میں ناکام ہے۔ آفرین ہے بین الاقوامی شہرت کے مالک میجر پروین ساہنی، اجے شکلا، ششانت سنگھ، منوج جوشی، روی نیئر، کرن تھاپر، یوٹیوب چینل THE WIRE پرمختلف پروگرامز، تن من سے بھارت کو حقیقت سے آگاہ کر رہے ہیں۔ یہ جان کر دلی خوشی ہوئی کہ بھارت تین بڑی مدوں میں (جنگی، سفارتی اور اخلاقی) زمین بوس ہو چکا۔ چین خم ٹھونک کر دن دہاڑے پاکستان کیساتھ موجود ہے۔ آج بھارت بدترین میڈیا اور جھوٹ پر مبنی ساکھ، سفارتی تنہائی، بدترین پسپائی کے ہاتھوں عالم میں رسوا ہو چکا۔ تحریک انصاف کا مخمصہ، سب سے بڑا لاینحل مسئلہ، عمران خان کی رہائی بن چکا ہے ، قائدین لواحقین، حامیوں کیلئے ’’مسئلہ فیثا غورث‘‘ ہے۔ 5 اگست 2023ء جب عمران خان کی گرفتاری ہوئی، تحریک انصاف کی سیاست کا مرکز و محور "عمران خان رہائی" کے سوا کچھ بھی نہیں۔ 9 مئی کا سانحہ، جلاؤ گھیراؤ، سب کچھ عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ہی تو ہوا تھا۔ تب سے عمران خان پارٹی کنفیوژن، الجھنوں کی گرفت میں ہے ۔ جن میں نامی گرامی شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چوہدری، عمر چیمہ، کسی سطح، کسی موقع جھوٹے منہ انکا نام سنجیدگی سے لیا گیا ہو۔ تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی ’’مزاحمت یا مفاہمت‘‘ ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ممکنہ طور پر عمران خان دونوں راستے بیک وقت آزما رہے ہوں۔ ایک طرف احتجاج سے دباؤ اور دوسری طرف مفاہمتی عمل میں اسٹیبلشمنٹ سے رعایت لینے کی کوشش ہو گی۔ ایسی حکمت عملی شاید رائیگاں جائے۔ جب گوہر علی کو پارٹی صدر ، عمر ایوب کو اپوزیشن لیڈر، علی امین گنڈا پور کو وزیر اعلیٰ، باقی بیرسٹر علی ظفر، وقاص اکرم، بیرسٹر سیف علی وغیرہ کو اہم ذمہ داریاں دیں تو ڈیل یا معاملہ فہمی کیلئے عملی اقدامات ہی کئے تھے۔ تحریک انصاف سیاسی تضادات اور اندرونی کشمکش، باہمی عدم اعتماد و ٹکراؤ سے لدی پھندی ہے۔ بیک وقت مفاہمتی اور مزاحمتی ٹیمیں الگ الگ کام کر رہی ہیں، عمران خان خود دونوں ٹیموں کی حوصلہ افزائی اور سر پرستی کر رہے ہیں۔ علیمہ خان کا حالیہ بیان حیران کن کہ یوٹرن ہی کہلائے گا کہ عرصہ سے مفاہمتی عمل کی دشمن، یکمشت مفاہمت اور کچھ لو اور کچھ دو کی بات کر رہی ہیں۔ ’اس وقت بات کرنی ہے تو ہم عورتیں آپکے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں، کچھ لو اور کچھ دو پر بات کرتے ہیں۔ آپ سے وعدہ ہے کہ آپ سے وعدہ خلافی نہیں کریں گے‘۔

علیمہ خان کی گفتگو شاید کارکنان کو ذہنی طور پر تیار کرنے کیلئے تھی۔ زائچہ بنایا، نکتے جوڑے تو میری خوش گمانی کہ 5جون کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ ایسے تناظر میں میرا ویڈیو کلپ بھی وائرل ہے۔ پچھلے دو ہفتوں سے PTIکے تضادات اسی بات کی غمازی کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ تفصیلات اور بھی کالم کی حدود و قیود کا خیال ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عمران خان سے معاملات طے، NRO آخری مراحل میں ہے۔ عید سے پہلے کچھ نہ کچھ پیش رفت ہوگی۔ کم از کم بشریٰ بی بی کی رہائی اور زیادہ سے زیادہ بڑی رہائی کا امکان بھی موجود۔

تازہ ترین