لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کے اقبال کے نام133 خطوط حال ہی میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے شائع کئے ہیں ۔قبلہ ڈاکٹر صاحب پنجاب یونیورسٹی میں اردو کے صدر شعبہ رہے ۔ انسٹی ٹیوٹ آف اردو لینگوئج اینڈ لٹریچر کے پہلے ڈائریکٹر ٹھہرے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں مسند ظفر علی خان پر فائز رہے ۔ جامعہ الازہر میں اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھایا ۔ ان دِنوں ایران کی تہران یونیورسٹی میں پاکستان چیئر پر رونق افروز ہیں۔ علامہ اقبال اور اکبر الٰہ آبادی میں تعلق خاطر سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد منیر نے 1910 ء سے 1921 ء تک اکبر کے خطوط بنام اقبال مدون کئے ہیں اور عصر حاضر کے معروف اہل دانش سے اس تحقیق پر دادو تحسین پائی ہے۔ درویش نے بصد شوق کتاب اٹھائی اور پڑھتا چلا گیا۔ یہ خطوط ان ہنگامہ پرور برسوں میں لکھے گئے جو بیسویں صدی کی ہندوستانی سیاست کا تشکیلی عہد تھا۔منٹو مارلے اور مانٹیگیو جیمسفورڈکی اصلاحات اس زمانے میں نافذ ہوئیں۔ پہلی عالمی جنگ اور خلافت عثمانیہ کا ہنگامہ ظہور پذیر ہوا۔ میثاق لکھنؤ طے پایا۔ جلیانوالہ باغ کا قتل عام ہوا۔ تحریک خلافت اور دارالحرب سے ہجرت کا غلغلہ اٹھا۔ گاندھی جی نے ستیاگرہ کی نیو اٹھائی۔
اکبر الٰہ آبادی کے بارے میں عام طور سے دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک طبقہ انہیں قدامت پسند سمجھتا ہے جبکہ حسرت موہانی جیسے کچھ زعما کا خیال ہے کہ اکبر دراصل فرنگی حکمرانوں کے مخالف تھے اور طنزیا مزاح کے پردے میں انگریز حکمرانوں اور ان کے ٹوڈیوں پر نشتر زنی کرتے تھے۔ اکبر ماتحت عدلیہ سے وابستہ تھے۔ اپنے صاحبزادے عشرت حسین کو تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا تھا ۔گویا زمانے کی روش سے ایسے لاتعلق بھی نہیں تھے۔ اگرچہ بعد ازاں انہیں ’ایسی سب کتابوں کو لائق ضبطی سمجھنا پڑا جنہیں پڑھ کر بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں‘۔ ادب میں مزاح ہو یا سنجیدہ تحریر، لکھنے والے کا باطنی رجحان اپنی جھلک ضرور دیتا ہے۔ اکبر کے خطوط پڑھ کر سخت مایوسی ہوئی۔ان کے خطوط میں روزمرہ کے معاملات ہیں، کچھ ادبی مباحث اور مذہبی احیا پسندی کا تذکرہ ہے ۔ اپنے عہد کی علمی ، سیاسی ، تمدنی اور آئینی حرکیات سے محترم اکبر الٰہ آبادی مکمل لاتعلق ہیں۔ ان خطوط کے تناظر میں اکبر کی شاعری کے بارے میں حسن ظن دھواں بن کر اڑ گیا۔ اکبر الٰہ آبادی ایک بڑے شاعر تھے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ان کا جملہ کلام اعلیٰ تخلیقی محاسن سے خالی ہو۔ تاہم ہمارا معاشرہ جیسا سیاسی تربیت سے خالی ہے ویسا ہی ادبی ذوق سے نابلد ہے۔ اکبر کے ان گنت اشعار حتمی تجزیے میں عصر حاضر سے متصادم ہیں۔ ایک مصرع ہم نے ایک خاص طبقے کے طفلان گلی کوچہ سے بارہا سنا۔ ’رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ‘۔ اکبر جب یہ مصرع لکھ رہے تھے تو ہمارے لیڈروں میں قائداعظم محمد علی جناح ، گوپال کرشن گوکھلے، سیف الدین کچلو، محمد علی جوہر اور موتی لال نہرو شامل تھے۔ 9ستمبر 1921ء کو وفات پانے والے اکبر الٰہ آبادی کے فلک کو خبر نہیں تھی کہ ٹھیک ربع صدی بعد انگریز رخصت ہو جائیں گے ، ہندوستان کا بٹوارا ہو گا اور ’لیڈر‘ کے نام پر کیا ’معجون مرکب بہ ورق نقرہ پیچیدہ ‘ ہمارے حصے میں آئے گا۔
تاریخ نے ورق پلٹا۔ 1946 ء کے صوبائی انتخابات منعقد ہوئے۔ صرف پنجاب کو لیجئے۔ کل نشستیں 175 تھیں۔ مسلم لیگ نے 73 ، کانگریس نے 51 ، اکالی دل نے 20 ، یونینسٹ پارٹی نے 21 نشستیں حاصل کیں۔ کانگریس ، اکالی دل اور یونینسٹ پارٹی نے 92 نشستوں کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کر لی۔ یہ ایسے ہی جمہوری اور آئینی حکومت تھی جیسے 2024 ء میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی۔ مسلم لیگ پنجاب کی صوبائی حکومت کو غیر نمائندہ قرار دیتی تھی ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے تحریک انصاف زیادہ نشستیں رکھنے کے باوجود اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔ 1946 ء میں مسلم لیگ نے خضر حیات حکومت کے خلاف تحریک چلائی ۔ خضر حیات ٹوانہ نے 2مارچ 1947 ء کو استعفیٰ دے دیا۔ مسلم لیگ حکومت بنانے میں ناکام رہی ۔ گورنر Evan Jenkins نے گورنر راج قائم کر دیا۔ پنجاب میں فسادات پھوٹ پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ پنجاب کا بٹوارا نہیں چاہتی تھی۔ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف قائداعظم کا 4 مئی 1947 ء کا بیان تاریخ کا حصہ ہے جس کے جواب میں راجندر پرشاد کا بیان بھی حرف بحرف موجود ہے۔ پاکستان کی قومی قیادت کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یونینسٹ پارٹی کے سرکاری ٹائوٹ راتوں رات مسلم لیگ پر قبضہ کر لیں گے اور ان کٹھ پتلیوں پر بیوروکریٹ محمد علی، غلام محمد ، زاہد حسین ، ممتاز حسن ، وزیر علی اور سعید حسن کاٹھی ڈال لیں گے۔ سیاسی عمل ایک بہتا ہوا دریا ہے جس میں ایک روایت ہوتی ہے اور ایک وراثت ہوتی ہے۔ غیر جمہوری قیادت کی کوئی سیاسی وراثت نہیں ہوتی۔ آپ بتائیں کہ آج ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کا تصور کہاں ہے۔ یحییٰ خان کے لیے کارنیلئس کا لکھا آئین ہماری تاریخ میں کہاں ہے۔31 جولائی 1983 ء کو ظفر احمد انصاری نے ضیا الحق کی فرمائش پر غیر جماعتی سیاسی نظام کے حق میںجو رپورٹ پیش کی تھی ، آج اس کا نسخہ کہیں دستیاب نہیں۔ پرویز مشرف کے سات نکاتی پروگرام کا موجودہ پاکستانی سیاست میں نشان کہاں ہے۔ اس کے مقابلے میں ’غلطیوں کے پتلے ‘ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 ء کو جو دستور دیا تھا اسے ضیا اور مشرف کی آمریتیں بھی ختم نہیں کر سکیں۔’ بدعنوان‘ آصف علی زرداری نے جس اٹھارہویں ترمیم پر دستخط کیے تھے اسے چھ نکات سے زیادہ خطرناک قرار دینے والے اسے چھو کر دکھائیں۔ نواز شریف نے اٹھاون ٹو بی ختم کی تھی اسے دوبارہ آئین کا حصہ بنا کر دکھایا جائے۔ ان گزارشات کا مفہوم یہ ہے کہ آمریت محروم الارث ہوتی ہے۔ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔دوسری طرف جمہوریت میں سو خرابیاں سہی، جمہوریت قومی تاریخ کا نامیاتی سفر ہے۔ اس میں وقتی پسپائی تو ممکن ہے لیکن جمہوریت آج کے اندھیروں میں آئندہ کی راہیں روشن کرتی ہے۔