نظریہ ارتقاء کو ماننے والے کہتے ہیں کہ انسانی نسل کی موجودہ شکل ہوموسیپئنز نے انسانی نسل کی آٹھ ماضی کی شکلوں کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی ہے ۔موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ہوموسیپئنزجب دنیا میں آئے تو اس وقت آٹھ مختلف شکلیں پہلے سے مختلف خطوں میں آباد تھیں۔ ہوموسیپئنز میں ایک خصوصی جین ایسی پیدا ہوئی جو اس سے پہلے کسی بھی انسانی شکل میں نہیں تھی۔ اس جین کو سائنسی زبان میں سوشل جین یا سمائلنگ جین کہتے ہیں ،یہی وہ جین ہے جس نےہوموسیپئنز کو انسان کا نام دلوایا۔ اسی وجہ سے انسان وہ واحد جانور بنا جو نہ صرف بولتا ہے بلکہ کام کی باتوں کے علاوہ گپ شپ لگاتا ہے،مذاق کرتا ہے، ہنستا ہے اور قہقہے بھی لگاتا ہے۔ انسان سے پہلے کا کوئی بھی جانور 40سے زیادہ کا ریوڑ نہیں بناتا تھا ۔ ہاتھی اور ریچھ 40سے زیادہ ہونے پر الگ ریوڑ بنا لیتے ہیں، یہ انسان ہی تھا جس نے اکٹھے رہنا سیکھا۔ شہر بسائے اور اکٹھے بسنےکیلئے اصول بنائے۔ یہی جین تھی جس نےہوموسیپئنز کو اشرف المخلوقات بنا دیا اور دنیا اس سے مسخر ہونا شروع ہوگئی۔ کبھی انسان جانوروں سے ڈر کر رہتا تھا آج عقل سے انسان اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ جانور اس سے ڈرتے ہیں۔
سوشل جین نے 50ہزار سال میں انسانی تہذیب کواس عروج تک پہنچا دیا ہے کہ امن اور جنگ دونوں طرح کے حالات کیلئے مصنوعی ذہانت لازمی جزو بن چکی ہے۔ ایک طرف علم اور ٹیکنالوجی کے ذخائر مصنوعی ذہانت کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچ رہے ہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیقی مضامین بھی تشکیل ہو رہے ہیں دوسری طرف جنگ بھی زمینی فوج کی بجائے مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی سے لڑی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ، لبنان اور ایران میں جو تباہی مچائی ہے اس میں بہت حد تک مصنوعی ذہانت کا تعلق ہے۔ اسرائیل رقبے اور آبادی کے لحاظ سے لاہور جتنا ہے لیکن تخلیقی ذہانت میں اس نے دنیا کی سپر پاور امریکہ کو بھی پچھاڑ دیا ہے اسرائیل کی یونیورسٹیوں میں دنیا کے سب سے زیادہ سٹارٹ اپسSTART UPSتخلیق ہوتے ہیں۔ اسرائیل پر تحقیق کرنے والوں نے کھوج لگایا ہے کہ حزب اللہ کے لبنان میں ٹھکانوں اور اسکے لیڈروں کی شناخت کیلئے اسرائیل نے مصنوعی ذہانت کے دو پروگرام ترتیب دیئے، ایک کا نام GOSPEL ہےاور دوسرے کا LAVENDER۔ اسرائیل نے ان پروگراموں کے ذریعے حزب اللہ کے ہر لیڈر کے چہرے کو شناخت کے ذریعے فیڈ کر رکھا تھا ایک دوسرے پروگرام کے ذریعے ان کے ٹھکانے کا بھی پتہ لگا چکا تھا جنگ کے شروع میں اسرائیلیوں نے ایک اور پروگرام تخلیق کیا جس کا نام WHERE IS MY DAD ۔ اس مزاحیہ نام کے پروگرام کے ذریعے حزب اللہ کے لیڈر اور انکے ٹھکانے کے ایک ہی مقام پر ہونے پر انہیں نشانہ بنایا جاتا تھا گویا اسرائیل نے غزہ اور لبنان میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنے مخالفوں کو ختم کیا۔
حالیہ جنگ میں پاکستان نے بھارت سے ٹیکنالوجی میں واضح سبقت ثابت کی مگر پاکستان کی اندرونی صورتحال یہ ہے کہ ہماری فوج کی ٹیکنالوجی میں صلاحیتیں سپر پاور جتنی ہیں ہم اپنے ملک میں پیچیدہ ترین ٹیکنالوجی کی مہارت رکھتے ہوئے فوج کیلئے جدید ترین طیارے، ٹینک، میزائل اور اسلحہ بارود بنا رہے ہیں ،دوسری طرف سول سائیڈ ٹیکنالوجی میں اس قدر پسماندہ ہیں کہ سول محکمے اور پرائیویٹ ادارے ابھی تک سوئی بھی نہیں بنا سکے۔ ایک طرف ہم فوج کی زیر نگرانی نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کر چکے ہیں جبکہ سول سائیڈ پر ہم ٹیکنالوجی میں دہائیاں پیچھے ہیں۔ باقی دنیا میں ایسا فرق نہیں ہوتا ۔سول میں ٹیکنالوجی کی ترقی کو فوج کے ساتھ حصہ دار بنایا جاتا ہے اور فوج، سول کو اس میں حصہ دار بناتی ہے تاکہ سول اور فوج دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جدیدیت کے سفر پر روانہ ہوں مگر پاکستان میں سول اور فوج میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے دروازے تقریباً بند ہیںجسکی وجہ سے ہمارے ہاں سول ٹیکنالوجی میں کوئی ترقی نہیں ہو پا رہی ۔ ان دونوں شعبوں کو ٹیکنالوجی اور بالخصوص مصنوعی ذہانت کی ترقی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا ہوگی۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس طرح آج سے 50 ہزار سال پہلے انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے سوشل جین نے آج کی دنیا تخلیق کی تھی مصنوعی ذہانت کے جین ارد گرد کی دنیا کو تبدیل کرنے والے ہیں ۔ پہلے جنگ سرحدوں پر سپاہیوں اور زمینی فوج کے ذریعے لڑی جاتی تھی مگر حالیہ پاک بھارت جنگ ٹیکنالوجی کی جنگ تھی۔ میزائل ٹیکنالوجی اور ڈرون ٹیکنالوجی نے جنگ کا رخ ہی بدل ڈالا ہے۔ القاعدہ کے ساتھ امریکہ کی جنگ کا خطرناک ترین ہتھیار ڈرون تھا امریکہ سے بیٹھ کر بغیر کسی گرائونڈ فورس کے وہ چن چن کر طالبان اور القاعدہ کمانڈرز کو نشانہ بناتے رہے ،ڈرون نہ ہوتے تو القاعدہ آج بھی موجود ہوتی۔ اسی طرح سول سائیڈ پر مصنوعی ذہانت صدیوں پرانی ریت روایت کو بدلنے والی ہے آئندہ وقتوں میں کتب، سکول، استاد ، کالج اور یونیورسٹی کا موجودہ تصور تبدیل ہو جائے گا جس طرح موبائل ٹیکنالوجی نے آفس کلچر اور ہر روز دفتر جانے کی روایت میں انقلابی تبدیلی کردی ہے اسی طرح کی تبدیلیاں ہر طرف نظر آئیں گی۔
میری رائے میں اب ہومیو سپیئنز کو مصنوعی ذہانت کے تڑکےکے بعد انٹیلی جینٹ ہومیوسپیئنز کا نام دیا جائے کیونکہ یہ 50 ہزار سال پہلے کے انسان سے ذہنی طورپر واقعی بہت آگے چلے گئے ہیں اتنا آگے کہ جو انسان نے 50ہزار سال میں بنایا ہے ہر ایک پر نظرثانی کی ضرورت پڑے گی چاہے وہ آپ کے اردگرد کی ٹیکنالوجی ، روزمرہ کی زندگی یا پھر مجموعی معاشرت ۔ اور پھر یہ تبدیلی رکنے والی نہیں ہوگی اسکےاثرات سیاست اور عالمی منظر نامے پر بھی پڑیں گے۔
پاکستان نے جنگ میں برتری تو حاصل کرلی ہے لیکن اصل لڑائی اب مصنوعی ذہانت میں مقابلے کی ہوگی۔ پاکستان کو اب اپنے وسائل اس مد میں لگانے ہوں گے ۔ چین اس حوالےسے کافی کام کر چکا ہے ہمیں بھی چین کے ساتھ مل کر مصنوعی ذہانت کے خصوصی تحقیقی مراکز بنانے چاہئیں تاکہ ہم بھی تیزی سے بدلتی دنیا سے ہم آہنگ رہ سکیں۔