اُن کی تنازعات سے بھری زندگی پر نظر ڈالیں تو شاید یہ شعر آصف علی زرداری کیلئے ہی لکھا گیا ہے کہ
سب نے رد کردیا تو پھر میں نے
اپنے ہونے کا اعتبار کیا
اُن کی چالیس سالہ سیاست الزامات اور واقعات سے عبارت ہے۔ ’’مسٹرٹین پرسنٹ سے سینٹ پرسنٹ، جیل بھی طویل، مقدمات بھی اِن گنت ،قتل سے کرپشن تک، یہ سفر تا حال جاری ہے اور وہ ایک بار نہیں دو بار صدر پاکستان منتخب ہونے والے پہلے سویلین صدر ہیں جنہوں نے پہلی بار اقتدار کی پُر امن منتقلی بھی کی اور اقتدار لیا بھی… آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ 2008 ء کے غیر متنازع انتخابات کے بعد بھی صدر بنے اور 2024ء کی متنازع پارلیمنٹ سے بھی منتخب ہوئے۔ وہ سابق صدر غلام اسحاق خان کی طرح بہت سے رازوں کے امین ہیں جسکے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے کہ وہ کبھی خود اپنی سوانح عمری لکھیں گے یا نہیں۔ اچھا ہوا اُن کے ترجمان فرحت اللہ بابر، جو ایک انتہائی اچھی شہرت رکھنے والے انسان ہیں، نے ’’دی زرداری پر یزڈینسی 2013-2008 ‘‘ کے نام سے انکشافات اور واقعات سے بھری کتاب تحریر کر ڈالی۔ مجھے اُنکی دوسری کتاب جس کا تعلق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے ہے، کا انتظار رہے گا۔
سول،ملٹری تعلقات کےبارے میں اس کتاب میں بہت کچھ ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ سے لے کر USاسٹیٹ تک یہاں تک کے رئیل اسٹیٹ کے ایک اہم کردار تک۔ صرف یہی نہیں کچھ ایسی باتوں کا بھی ذکر ہے جن کا تعلق زرداری صاحب کے قریبی دوستوں سے ہے۔ بابر صاحب جو ماضی میں محترمہ کے بھی ترجمان رہے لکھتے ہیں ’’بے نظیر بھٹو کے زرداری صاحب کے بعض دوستوں کے بارے میں شدید تحفظات رہے اور اکثر وہ مجھ سے کہتی تھیں کہ وہ اِن افراد کی موجودگی پسند نہیں کرتیں،‘‘ اُن میں سے کچھ دوستوں کو جو زرداری صاحب کے بچپن کے دوستوں میں سے ہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے مجھ سے اُنکی جوانی کے کئی قصے بھی شیئر کیے ہیں کیڈٹ کالج پٹارو سے لے کر اُن کی سیاسی اور نجی زندگی تک۔ دلچسپ امریہ ہے کہ بی بی کے تحفظات کے باوجود وہ لوگ ایوانِ وزیرِ اعظم میں بھی اور ایوانِ صدر بھی آتے رہے۔ آصف زرداری نے صدر بننے کا فیصلہ کیوں کیا۔ بابر صاحب نے زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کی 2008ء کے انتخابات کے بعد زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے جس میں دلچسپ صورتحال اُس وقت پیدا ہوئی جب میاں صاحب نے زرداری صاحب سے کہا۔ ’’میری پارٹی کے لوگوں کا خیال ہے اور خواہش بھی کہ میں صدر بن جاؤں۔ زرداری صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا میری پارٹی کا بھی میرے بارے میں یہی خیال ہے۔‘ ابھی صدارتی انتخابات کا مرحلہ دور تھا کیونکہ جنرل پرویز جو اُس وقت آرمی چیف تو نہیں تھے صدر مملکت ضرور تھے اور امریکی حکام بھی یہی چاہتے تھے القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ کے تنا ظر میں۔ میں نے 2008ء میں بھی الیکشن کے فوراً بعد زرداری ہاؤس اسلام آباد میں اُن کا انٹرویو کیا اور انٹرویو شروع ہونے سے پہلے وہ مجھے ایک الگ کمرے میں لے گئے۔ اور مجھ سے پوچھا۔ ’’تیرا کیا خیال ہے مجھے کیا کرنا چاہئے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’یہ آپ کا اور پارٹی کا فیصلہ ہے میں ایک نظریاتی ضرور ہوں مگر میرے خیال میں محترمہ کے بعد پارٹی کمزور پڑگئی ہے۔‘‘ زرداری صاحب سے کئی دلچسپ ملاقاتیں رہیں مگر زیادہ تر جیل یا عدالتوں میں، ایوانوں میں بہت کم اور غیر ملکی دورے میں بھی نہیں گیا۔ یہ سب اپنی یاداشتوں میں ضرور لکھوں گا۔ انٹرویو کے دوران بھی میرا پہلا سوال یہی تھا۔ ’’کیا میں ملک کے آئندہ سربراہ کا انٹرویو کر رہا ہوں‘‘ جواب ’’جو بھی بنے گا وہ جیالا ہی ہو گا‘‘ ۔سول، ملٹری تعلقات کے حوالے سے کئی چونکا دینے والے واقعات بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔ بقول فرحت اللہ بابر۔ ’’زرداری صاحب نے سویلین بالادستی قائم اور مضبوط کرنے کے بعض مواقع ضائع کردیئے مگر وہ کبھی اپنے ذہن اور سینے میں جو سوچ رکھتے ہیں وقت سے پہلے نہ کسی سے شیئر کرتے ہیں نہ ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے سے انکار کردیا تھا اور یہ کام ’میاں صاحب‘ پر چھوڑ دیا کہ جب آپ وزیر اعظم بنیں تو کوشش کر لیجئے گا۔ بقول بابر صاحب، ’’جنرل مشرف کو صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ بھی انہوں نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے رائے لے کر کیا کہ کہیں ان کو یا فوج کو اعتراض نہ ہو۔ پھر اُن کو ایک محفوظ راستہ بھی دیا۔ تاہم انہوں نے کیانی صاحب کی اِ س رائے پر کوئی رائے نہیں دی کہ مشرف کی جگہ پارٹی آفتاب شعبان میرانی کو صدر بنا سکتی ہے۔ مگر وہ سمجھ گئے کہ مقتدرہ کی اُن کے بارےمیں کیا سوچ ہے۔ ایبٹ آباد، میمو گیٹ اور ریمنڈ ڈیوس یہ تینوں اہم ترین واقعات ہیں جواِن گنت سوالات کو جنم دیتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم آج تک دہشت گردی پہ قابو نہیں پا سکے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے دعوے تو بہت مگر یہ اب ہماری جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔ اس پر غور کریں کہ ’رمزی یوسف سے لے کر اسامہ بن لادن تک لمبی فہرست ہے ایک ایک کا جائزہ لے لیں کہ ہم کتنی سنگین غلطیاں کرتے آئے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کا بھی غیر جانبداری سے جائزہ لیں اور اپنی غلطیوں کو بھی درست کریں۔ یہ ایک بہتر موقع ہے دنیا بھی ہمارے ساتھ ہے مگر یاد رکھیں ایک واقعہ بھی واپس 10سال پیچھے لے جا سکتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آج تک ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ منظر عام پر تو چھوڑیں پارلیمنٹ میں بھی پیش نہیں کی گئی ایبٹ آباد اور ریمنڈڈیوس ہماری آزادی، خود مختاری پر سنجیدہ سوالات اٹھاتےہیں۔ مجھے 1995ء کا وہ واقعہ آج تک یاد ہے جب دو امریکی انڈر کور ایجنٹ ہلاک ہوئے نرسری کے قریب وہ بھی اپنے زمانے کے ریمنڈ ڈیوس ہی تھے۔
اِس کتاب کا چونکا دینے والا واقعہ اُس رات کا ہے جب زرداری صاحب کی طبیعت خراب تھی اور جنرل کیانی نے اُنہیں ٹیلی فون کیا۔ کتاب میں اس حوالے سے صرف اتنا درج ہے کہ گفتگو کوئی ڈھائی گھنٹے جاری رہی جس میں زرداری صاحب کم بولے اب باتیں کیا ہوئیں یہ تو جنرل کیانی یا زرداری صاحب ہی بتاسکتے ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے واقعی سیاست ممکنات کا کھیل ہے کہاں وہ حسین حقانی جن کے بارے میں خود محترمہ بے نظیر اور پی پی پی کا الزام تھا کہ 1988ء میں انہوں نے بیگم نصرت بھٹو اور امریکی صدر فورڈ کی ڈانس کرتی ہوئی تصاویر جہاز سے گرائیں گو کہ وہ خود اس کا ذمہ جنرل حمید گل کو دیتے ہیں اور کہاں یہ وقت جب زرداری صاحب حقانی کے بغیر ملک چھوڑ نے کو تیار نہیں۔ بہر کیف اس کتاب میں بہت کچھ ہے پڑھنے کو یہ 2013۔2008ء کے واقعات پر مشتمل ہے دیکھتے ہیں جب صدر زرداری اپنی دوسری اننگ مکمل کریں گے تو وہ راز جنرل راحیل شریف سے لے کر جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید سے لے کر فیلڈ مارشل عاصم منیر تک کون رقم کرے گا۔ شاید زرداری صاحب خود یا محترمہ رخسانہ بنگش جو 70کلفٹن سے لے کر بلاول ہاؤس تک ایوان وزیر اعظم سے لے کر ایوان صدر تک کی عینی شاہد ہیں۔ رہ گئی بات سول ملٹری تعلقات کی تو یہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے لحاظ سے تو آئیڈل ہیں ہوسکتا ہے میں غلط ہوں مگر مجھے مستقبل میں مریم نواز صاحبہ وزیر اعظم نظر نہیں آتیں۔ اب اگرسوچ بدل جائے تو پتا نہیں ورنہ اس کتاب میں بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ایک واقعہ درج ہے پڑھ لیں۔