کرکٹ میچ ہو یا جنگ، جب کوئی ملک ہار جاتا ہے تو عوام اربابِ بست وکشاد سے ناراض ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنا غصہ نکالنےکیلئے کوئی سیدھا سیدھا ہدف درکار ہوتا ہے، ایسے میں فیصلہ ساز افراد اور ادارے ہار کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کیلئے ایک داخلی جنگ آغاز کرتے ہیں، اپنا مستقبل، اپنی سیاست بچانے کیلئے یا اپنے ادارے کی حُرمت بچانے کیلئے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہم نے یہ تماشا دیکھ رکھا ہے۔ آج کچھ ایسی ہی اندرونی لڑائی ہم بھارت میں دیکھ رہے ہیں۔
بھارتی اپوزیشن آپریشن سیندور کی ناکامی کا واحد ذمہ دار مودی کو قرار دے رہی ہے، بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف اقرار کر رہے ہیں کہ ہندوستانی فضائیہ کے طیارے جنگ میں بھرشٹ ہوئے ہیں، انڈین ایئر فورس کے سینئر افسر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سال ہا سال جو جنگی سامان حکومت سے مانگا وہ ہمیں نہیں دیا گیا، اور یہ کہ جنگی سامان کی خریداری کا فیصلہ سیاست دان کرتے ہیں جس سے مسائل پیدا ہوئے ہیں، بھارتی وزارتِ دفاع اور فوج کے درمیان بھی اختیارات کی تقسیم پر قضیہ بڑھا ہے، اور انڈین ایئر چیف ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (HAL) کی ناکامیوں پر شدید خفگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جنگ میں کامیابی پر کیا ادارے اس طرح دست و گریباں ہوتے ہیں؟ جیت کے شور میں تو بڑی بڑی جنگی غلطیاں دب جاتی ہیں۔ اب پاکستان کا منظر دیکھیے، سب متعلقہ ادارے و افراد ایک دوسرے کی مدح کر رہے ہیں، کسی سے کوئی گلہ مند نہیں، کسی دوست ملک سے شکایت نہیں، بلکہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت حلیف ممالک کا شکریہ ادا کرتی پھرتی ہے۔ ہندوستان کی لاچارگی دیکھیے کہ انکے ہاں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں ترکیہ اور آزر بائیجان کے خلاف بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے، معاشی مقاطعہ اور سفارتی جنگ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جبکہ چین کی چ بولنے کی جرات بھی کسی ہندوستانی کو نہیں ہو سکی۔ سچی بات یہ ہے کہ بھارت اس وقت بدحواس نظر آرہا ہے۔ وہ پاکستان کو سبق سکھانے نکلا تھا، بھارتیوں کو بتایا گیا تھا کہ ’’آر یا پار‘‘ کا لمحہ آن پہنچا ہے، پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سُدھ کر دیا جائیگا۔
اب ایک نظر مودی جی پر ڈالیے، وہ بیرونِ ملک کسی دورے پر نہیں گئے، اور جائیں تو کہاں جائیں کہ کسی ملک نے اس جنگ میں بھارت کا ساتھ ہی نہیں دیا۔ بھارتی سفارتی تنہائی دیو مالائی دکھائی دے رہی ہے۔ لہٰذا مودی ’’جشنِ فتح‘‘ مناتے پھرتے ہیں، وہ بھی ان علاقوں میں جہاں چنائو آ رہے ہیں۔ مودی کی پہلی کوشش تو یہ ہے کہ اپنے عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر انہیں جیت کا گولا گنڈا بیچ دیں۔ اس دروغ فروشی میں مودی کو بھارت کے بڑے میڈیا ہائوسز کا تعاون حاصل ہے۔ مگر بھارتی جنگی ہزیمت کی بازگشت اب اندرون و بیرون سے آ رہی ہے۔ مودی مشکل میں ہیں، اس وقت وہ اپنی سیاست کی بقا کے سب سے کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوتوا کی اساس مسلم دشمنی پر استوار ہے، مودی کو گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر انعام کے طور پر بھارتی عوام نے وزارت عظمیٰ کا تاج پہنایا تھا، اور پاکستان اس مسلم دشمنی کے پیکیج کا حصہ ہے، پاکستان سے نفرت کو مہمیز دینا مودی کی سیاسی کامیابی کیلئے اہم ہے، پاکستان کو نیچا دکھانے سے ہندوتوا سر بلند ہونی تھی، پیغام یہ دینا تھا کہ مودی صرف ہندوستان میں ہی نہیں پاکستان میں بھی مسجدیں مسمار کر سکتا ہے۔ بہرحال اسکے بعد جو ہوا وہ ہندوستان کے فضائی ’’شاریرک شوشنڑ‘‘ کی دردناک داستان ہے۔
مودی جی کا جھوٹ اگر بھارتی عوام نے ماننے سے انکار کر دیا تو پھر ان کے پاس کیا رستہ بچے گا؟ کیا وہ پھر پاکستان کے ساتھ کوئی چھوٹی موٹی واردات ڈال کر اپنے جنونی حامیوں کو بھارت کی ’’واضح فتح‘‘ پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے؟ مودی جی تو یقیناً ایسی حماقت کا سوچ سکتے ہیں لیکن کیا انکی فوج اس مس ایڈوینچر پر تیار ہو جائیگی؟ اگر ہم بھارتی فوج بالخصوص ایئر فورس کےسینئر افسروں کی حالیہ گفتگو سنیں اور سمجھیں تو اس سوال کا جواب ہے ’’نہیں، قطعاً نہیں۔‘‘ بھارت کی فورسز مسلسل اپنی حربی قوت میں موجود خلا کا تذکرہ کر رہی ہیں، اور ساتھ برسرِ عام اقرار کر رہی ہیں کہ اس خلا کو پُر کرنے کیلئے انہیں سال ہا سال درکار ہیں۔ اس صورتِ حال میں بھارتی افواج بھرپور کوشش کرے گی کہ پاکستان کیخلاف جنگ میںنہ اترا جائے۔ دس مئی سے سابق بھارتی فوجی اپنے میڈیا پر مسلسل ایک ہی بات دہرا رہے ہیں، کہ پاکستان سے جنگ کرنے کا اب سیدھا سادہ مطلب ہے چین سے جنگ کرنا، اور جس دن انڈیا چین کو شکست دینے کے قابل ہو جائے گا شوق سے پاکستان پر حملہ کرے، یعنی نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ اُدھر چینی ریاست کے نمائندوں نے بھی ہندوستان کا ’’تراہ‘‘ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ چین پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت پر کسی صورت آنچ نہیں آنے دئیگا، صاف لفظوں میں بتا رہے ہیں کہ اگر بھارت نے پاکستان کے کروڑوں لوگوں کا پانی بند کیا تو یہ مت بھولنا کہ ہندوستان کا پانی چین کے دریائوں سے آتا ہے۔ یہ ہیں زمینی حقائق۔ بھارت کے عسکری ماہرین اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان لگ بھگ ایک سال میں وہ حربی برتری حاصل کر لے گا جو اسے بھارت پر حملہ آور ہونے پر اُکسا سکتی ہے۔
اس چار روزہ جنگ نے کیا خطے میں طاقت کا ایسا توازن پیدا کیا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرپا امن کی بنیاد بن سکتا ہے؟ کامن سینس تو یہی کہتی ہے۔ پاک بھارت جنگ عقل کی توہین ہو گی۔ کیا آخرِ کار وہ وقت آن پہنچا ہے جب خطے کے دو ارب لوگوں کو امن کے ثمرات سمیٹنے کا موقع ملے گا؟