• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے وزیرِخزانہ جناب محمد اورنگزیب نے شدید احتجاجی آوازوں کے درمیان کمال عرق ریزی سے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کیا ہے جس کی گتھیاں سلجھانے میں ایک برس لگ ہی جائے گا اور پھر خوش رنگ وعدوں، دعووں اور عنایتِ خسروانہ کا ایک ہنگام بپا ہو گا۔ بجٹ سازی جس کا پاکستان کی تشکیل اور معاشی تعمیر میں بہت اہم کردار ہے، ہم نے اِسے محض ’’ایک کارِ زیاں‘‘ بنا کے رکھ دیا ہے۔ ہم اپنے معزز قارئین کو یہ حقیقت یاد دِلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جب آل انڈیا مسلم لیگ نے ’’پاکستان ایشو‘‘ پر90فی صد سے زائد مرکز اور صوبوں میں مسلم نشستیں جیت لیں، تو برطانوی حکومت نے ہندوستان کو متحد رکھنے کی ایک اور سرتوڑ کوشش کی۔ اُس نے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی سیاسی جماعتوں کو ایک عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت دی اور ہندوستان کو اَے، بی اور سی گروپس میں تقسیم کر دیا۔ اے اور سی گروپس میں مسلمان شامل ہونگے جبکہ گروپ بی میں غیرمسلم اکٹھے ہو جائیں گے۔ اُنہیں یہ آپشن بھی دیا گیا تھا کہ دس سال بعد وہ اِس بندوبست سے نکل کر اپنی آزاد حیثیت بھی آئینی طور پر قائم کر سکتے ہیں۔

اِس منصوبے میں چونکہ مسلمانوں کیلئے قانونی طور پر ایک آزاد رِیاست قائم کرنے کا واضح تصوّر موجود تھا، اِس لیے قائدِاعظم نے عبوری حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جس کے سربراہ پنڈت جواہر لال نہرو بنا دیے گئے تھے۔ کچھ دیر وزارتوں کے مسئلے پر کانگریس اور مسلم لیگ میں کھینچاتانی ہوتی رہی۔ سردار پٹیل وزیرِداخلہ بننے پر اصرار کرتے رہے اور اُنہیں وائسرائے ہند نے یہ منصب عطا کر دیا، لیکن سب سے دلچسپ معاملہ وزارتِ خزانہ کے سلسلے میں پیش آیا۔ چودھری محمد علی جو حکومتِ ہند میں وزارتِ خزانہ سے منسلک چلے آ رہے تھے اور قائدِاعظم کے بہت قریب تھے، اُنہوں نے قائدِاعظم کو مشورہ دِیا کہ وہ وَزارتِ خزانہ حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ اِس کے ذریعے مسلم لیگ اپنے اہداف جلد حاصل کر سکے گی۔ حُسنِ اتفاق سے سردار پٹیل یہ سوچ رہے تھے کہ وزارتِ خزانہ کا بوجھ مسلم لیگ پہ ڈال دیا جائے جو اِتنی بڑی ذمےداری ٹھیک طور پر اُٹھا نہیں سکے گی اور یوں برِصغیر کی سیاست سے ہمیشہ کیلئےآؤٹ ہو جائے گی۔ اِس منفی سوچ کے نتیجے میں جناب نوابزادہ لیاقت علی خاں وزیرِخزانہ تعینات کر دیے گئے۔ اُنہوں نے مارچ 1946ء میں بجٹ پیش کیا جسکے نتیجے میں برِصغیر کی قسمت یکسر تبدیل ہو گئی۔

نوابزادہ لیاقت علی خاں نے ’’غریبوں کا بجٹ‘‘ پیش کیا جو کانگریس کے منشور کے عین مطابق تھا۔ اُس منشور میں غریبوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ نوابزادہ صاحب نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہو گئے ہیں۔ دولت مند خاندانوں میں سرمایہ مرتکز ہو گیا ہے۔ قرآنِ حکیم چند ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کا مخالف ہے اور کانگریس کے منشور کی روح بھی یہی ہے، اِس لیے بجٹ میں سرمایہ داروں پر بھاری ٹیکس لگایا گیا ہے اور حکومت کو اِس کے ذریعے جو وسائل حاصل ہوں گے، وہ غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں گے۔ اُنہوں نے ایک اسپیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان بھی کر دیا جو ٹیکس چوری کا پتہ لگاتا اور اُنہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرتا رہے گا۔ اِس بجٹ نے کانگریس کی حمایت کرنے والے ساہو کاروں میں کہرام مچا دیا اور وُہ دوڑے دوڑے سردار پٹیل کے پاس آئے کہ یہ بجٹ تو ہماری کمر توڑ دے گا اور ہم کانگریس کی کوئی مالی اعانت نہیں کر سکیں گے، اِس لیے ہمیں اِس غریبوں کے بجٹ سے نجات دلائیں اور پاکستان کا مطالبہ فوری طور پر تسلیم کر لیں، چنانچہ سردار پٹیل جو پاکستان کے سب سے زیادہ مخالف تھے، وہ یک بیک پاکستان کے سب سے بڑے حامی بن گئے۔ یہ ’’غریبوں کے بجٹ‘‘ کا اعجاز تھا، چنانچہ اِس حیرت انگیز تبدیلی کے بعد حکومتِ برطانیہ کو تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان پر متفق ہونا پڑا اَور سیاسی جماعتوں کے مابین وسیع مفاہمت اور سمجھوتے کے نتیجے میں پاکستان 14؍اگست 1947ء کو وجود میں آیا۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیرِخزانہ جناب غلام محمد نے پہلا فاضل بجٹ پیش کیا تھا جو ایک عجوبے سے کسی طور کم نہیں تھا۔

ہمارے موجودہ وَزیرِخزانہ نے اب تک جو اِنکشافات اور اِعلانات کیے ہیں، اُنہیں ہم زخموں سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ کچھ معاشی تجزیہ نگاروں نے بجٹ کو اعدادوشمار کا گورکھ دھندا قرار دِیا ہے جبکہ سیاسی دانش وروں نے اِسے غریبوں کا خون چوسنے اور اَشرافیہ کیلئے ایک شاہانہ زندگی بسر کرنے کے بندوبست سے تعبیر کیا ہے۔ شاید یہ تنقید مکمل حقیقت پر مبنی نہ ہو، کیونکہ حکومت نے کچھ ٹیکسوں میں کمی کی ہے اور کم وسائل رکھنے والے شہریوں کو بعض سہولتیں فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بجٹ سے پہلے جو اِقتصادی سروے پیش کیا گیا ہے، اُس سے پتہ چلا کہ رواں سال میں تعلیم اور صحت پر جی ڈی پی کا ایک فی صد بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کو مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور تحقیق و جدت کا دور دُور تک نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ بدقسمتی سے ہمارے اسپتال قتل گاہوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ عام شہری کی صحت کی دیکھ بھال فقط ایک خواب محسوس ہوتا ہے۔ ہر جگہ شہری زندگی پس ماندگی کا شکار ہے۔ وزیرِخزانہ نے دوسرا اِنکشاف یہ کیا کہ مختلف طبقات کو جو مراعات دی جائیں گی، وہ سب قرض کے پیسوں سے ممکن ہو گا۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ خوفناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ سترہ ہزار اَرب پر مبنی بجٹ میں آٹھ ہزار اَرب روپے سے زائد قرضوں کا سود اَدا کرنے کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔ا سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور وفاقی وزرا کی تنخواہوں میں بیک وقت پانچ سو گنا اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ سولر پینل اور چھوٹی کاروں پر حیرت انگیز طور پر بھاری ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کس کی تدریجی حکمتِ عملی کا شاخسانہ ہے۔ یہ بات بھی ناقابلِ فہم ہے کہ آن لائن کاروبار بھی ٹیکس ریڈار پر آ گیا ہے۔

تازہ ترین