فیلڈ مارشل عاصم منیر کا فلک بوس اوجِ کمال نہ ختم ہونے کو، وطنی بحرانوں سے نبٹنے والے مردِ بحران ثابت ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف خم ٹھونک کر ’’آر یا پار‘‘ احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے کو ہے۔ حالیہ احتجاجی تحریک 11سال (2014تا 2025 ) سے چلائی گئی احتجاجی تحریکوں سے کس قدر مختلف ہو گی؟ ناکامی، نامرادی دیوار پر کندہ ہے۔
حضرت انسان کی اسکیم کی ترتیب بظاہر جامع و فول پروف، جنرل باجوہ نے عمران خان کو نکالنے کا سوچا تو شہباز شریف حکومت کا بننا ساتھ نتھی تھا۔ اسکیم کہ شہباز شریف ایک ماہ کےاندر نیب، الیکشن ریفارمز کر کے حکومت تحلیل کر دیں گے۔ نگران حکومت کا قیام، عملاً عنانِ اقتدارجنرل باجوہ کے پاس، بذریعہ نگران اپنی مرضی کے 5ججز کی خالی اسامیاں پُر کرنا، عمر عطا بندیال کو 5سال کی توسیع، قاضی فائز عیسیٰ کا مکو ٹھپنا، نگران حکومت کو چند سال رکھنا اور بذریعہ نگران اپنے آپ کو تاحیات آرمی چیف بنانا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر جن کو جنرل باجوہ ’’25نومبر 2018‘‘ کو ٹھکانے لگا چکے تھے۔ اگست 2022میں انکو آرمی چیف بنتے پایا تو آپے سے باہر ہو گئے، پاکستان اور ادارے پر حملہ کر دیا۔ سیاسی نابلد عمران خان جو وزیر اعظم سے معزولی کے بعد بھی اپنی عاقبت نااندیشی کے باعث جنرل فیض حمید کے زیر استعمال تھے۔ 10اپریل 2022 سے شہباز حکومت کیخلاف استعمال ہوئے۔ بعد ازاں جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رُکوانے میں ہراول دستہ بنے۔ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی جنرل باجوہ نے بذریعہ عمران خان بلاوجہ متنازع بنائی۔ ریٹائرڈ جنرل کے عنوان سے سوشل میڈیا پوسٹس کی بھرمار رہی۔ اگرچہ 23نومبر 2022کو جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کا اعلان ہو چکا تھا، حماقت ہی کہ 26نومبر کو بے مقصد راولپنڈی لانگ مارچ کر ڈالا۔ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کے تناظر میں، برسبیل تذکرہ ضروری کہ جنرل باجوہ کی بدنیتی اپنے آخری دو ہفتوں میں درجنوں جرنیلوں کو اہم عہدوں پر تعینات کرنا، مزید پیشہ ورانہ بددیانتی کہ درجن بھر نئے 3سٹار جنرل بنائے تاکہ جنرل عاصم منیر بصورت چیف ادارے کو سنبھال سنوار نہ سکیں۔ شاید افواج اندر بغاوت کا بھی سوچا گیا ہو؟۔ عمران خان نے ابتداً جنرل عاصم منیر سے رابطوں کی سرتوڑ کوشش کی مگر رسائی نہ ملی۔ کاش! عمران خان اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے اور اپنے 26نومبر کے راولپنڈی لانگ مارچ پر یا پھر 29 نومبر 2022کے فوراً بعد قومی میڈیا پر آ کر اپنا اخلاقی حجم بڑھاتے، جنرل عاصم منیر انکے اہلخانہ، ڈرٹی ہیری، مسٹر X/Y/Z سے اپنے کئے کی غیر مشروط معافی مانگتے۔ تب سے جنرل فیض حمید کی اشیرباد (اغلب امکان) پر جنرل عاصم منیر اور پورے ادارے کیخلاف علم جہاد بلندکئے رکھا۔
جنرل عاصم منیر کے ناقابلِ یقین سفر کا جامع احاطہ ناممکن ہے۔ کئی بار لکھا کہ جنرل عاصم منیر 9 مئی کےبعد ملکی تاریخ کے مضبوط ترین آرمی چیف بن کر سامنے آئے۔ جب سے آرمی چیف بنے، ملک کے اندر تحریک انصاف جبکہ بیرون ملک بھارت، پاکستان دشمن غیرملکی ایجنسیاں مع PTI سپورٹرز اپنے اپنے مفادات اور مسائل کے تناظر میں جنرل عاصم منیر کی بین الاقوامی سطح پر کردار کشی کی لامتناہی کوششوں میں ملوث ہیں۔ عام آدمی پاکستان آرمی سے نہ صرف اپنی اُمیدیں کھو بیٹھا تھا بلکہ ہمہ گیر کثیر تعداد میں اپنی فوج کو اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگا تھا۔ سانحہ پہلگام 22اپریل (اس سے پہلے سانحہ جعفر ایکسپریس اور ملکی طول و عرض میں دہشتگردی کا جڑیں پکڑتا عفریت) کے بعد لگتا تھا اور پروپیگنڈا عام تھا کہ پاکستان بھارت کا ترنوالہ بننے کو ہے۔ بھارتی عزائم سے وطن عزیز کے سنجیدہ، پختہ ذہن والے جید دانشور کہنے پر مجبور کہ ’’وطن عزیز‘‘ آر یا پار ’’فیصلےکی گھڑی آن کھڑی‘‘۔
اللہ کا شکر! 10مئی ایک نیا عظیم مضبوط پاکستان متعارف کروا گیا۔ 10مئی کی ناکامی کا سارا بوجھ پاکستانی فوج کو اٹھانا تھا اور جنرل عاصم منیر کو تختہ مشق و ستم بننا تھا۔ لامحالہ کامیابی ملی، پاک فوج زندہ باد، فیلڈ مارشل عاصم منیر کے سر ہی سہرا بندھے گا اور اُنہی نے ہی اوج ثریا پر رہناہے۔ 10مئی کے بعد کی رونقیں سنبھالی نہیں جا رہیں، عزم عالی شان، قوتِ اخوتِ فوج و عوام، وطنی جاہ و جلال و رعب و پہلی دفعہ پوری دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا ہے، بھارت لرزہ براندام ہے۔ منطقی نتیجہ جنرل عاصم منیر کو جب فیلڈ مارشل بنایا گیا تو دنیا نے مبارک سلامت کی بھرمار رکھی۔ پاکستان کی عظمت، فیلڈ مارشل کا عروجِ سفر ناختم ہونے کو، بلند سے بلند تر کی جانب گامزن ہے۔ 14جون کو امریکہ 35سال بعد افواج کا 250واں یومِ تاسیس منانے جا رہا ہے۔ 14جون کو واشنگٹن میں سارا دن تقریبات رہنی ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیرکو تقریبات میں شمولیت کی دعوت ملنا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس موقع پر فیلڈ مارشل نے امریکی دفاع، خارجہ اور تجارتی امور کے سربراہوں سے ملنا ہے۔ اس دعوت نامے نے جہاں پاکستان اور فیلڈ مارشل کو مزید عزت دی ہے وہاں پاکستان دشمن عناصر کے سینوں پر سانپ لُوٹ رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دشمن عناصر کا واشنگٹن میں ایسے موقع پر احتجاج صدابہ صحرا ہو گا، ذلیل ہونگے۔
بدھ کو تازہ بہ تازہ تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر احتجاج کی کال دے دی ہے۔ کیا کسی ایسی کال کا ماحول میسر بھی ہے؟ محترمہ علیمہ خان نے’’آر یا پار‘‘ احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ہے۔ جب سے فیلڈ مارشل کو دعوت نامہ ملا ہے، 31مئی بعد ازاں 10جون اور اب نئی کسی تحریک PTI کا سوچنا چلانا غیر منطقی اور احمقانہ ردِ عمل ہے۔ تحریک انصاف کو مثبت اور اپنی پہلی تحریکوں کی ناکامی کو بنظر غائر جانچنا ہو گا۔ ہمیشہ سے ناپختہ حکمت عملی سے ترتیب دی گئی احتجاجی تحریکوں نے پشیمانی اور ناکامی دی۔ 2014 دھرنا، جنرل ظہیر السلام کی شہ پر ترتیب دیا، (6اگست 2014 کے کالم میں پیشن گوئی کی تھی، ’’تحریک انصاف بند گلی میں پھنسنے کو، ہے کوئی جو عمران خان کو بند گلی میں جانے سے روکے‘‘)۔ 2016کے ناکام لاک ڈائون، 25مئی 2022کو 30لاکھ بندوں کیساتھ آکر شہباز شریف حکومت گرانا، اصل وجہ 25مئی 2022دوحہ قطر میں IMF کیساتھ مذاکرات ناکام بنانا تھا۔ 26نومبر 2022ء راولپنڈی لانگ مارچ عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی رُکوانا۔ اڑھائی لاکھ کارکنوں سے جیل بھرو تحریک، SCO سربراہان کانفرنس پر اسلام آباد پر چڑھائی، درجنوں بار تحریکیں، لانگ مارچ رچائے، کیا ان ناکامیوں کا بھی کبھی جائزہ لیا گیا۔ حالیہ تحریک ’’آر یاپار‘‘، انصافی خام خیالی کہ 14جون کو امریکی پریڈ میں فیلڈ مارشل کی شمولیت کو متنازعہ بنانا ہے۔ امریکہ آمد پر چند درجن کا احتجاج ہوا بھی تو کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔ پاکستان پار لگ چکا ہے، سہرا فیلڈ مارشل کے سر ہے۔