یہاں جو واقعہ بتانے چلا ہوں یہ اس وقت کا ہے جب امریکہ کے صدر رونالڈ ریگن کمزور ،بیمار یا علیل نہ تھے بلکہ لوہے کے راڈ کی طرح سیدھے کھڑے ہوتے تھے اور ان کے اعضا میں کسی قسم کی بھی کمزوری واقع نہ ہوئی تھی ۔امریکی میگزین پریڈ نے صدر امریکہ رونالڈ ریگن سے ایک انٹرویو لیا۔ اس نے صدر امریکہ کی صحت کے اصولوں اور انکی ورزش کے بارے میں سوالات کیے۔جناب صدر آپ اپنی غذا کے بارے میں بتائیں۔ کیا آپ کوئی خصوصی غذا کھاتے ہیں جو آپ کی شاندار صحت کا راز ہے؟ جواب میں اس وقت کے امریکی صدر نے کہا ـ ’’واقعہ یہ ہے کہ میں کسی خاص غذا کی پابندی نہیں کرتااور نہ میری کوئی مرغوب چیز ہے۔ لیکن میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ صحرا میری کمزوری ہے‘‘۔’صحرا‘؟ انٹرویور نے تعجب کے ساتھ کہا۔ امریکی صدر نے جواب دیا۔ ’’ہاں! عرب جیسا صحرا جس کے ساتھ تیل بھی ہو!‘‘
تیل سے مالا مال عرب ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ہے۔ خدا کی دی ہوئی دولت بھی افراط کے ساتھ ان کے پاس موجود ہے مگر حال یہ ہے کہ ایک کافر اور ظالم حکمران فخر کے ساتھ کہتا تھا مسلم ملکوں کی قدرتی دولت کو اپنی خوراک بنانا یہی میری غیر معمولی صحت کا راز ہے۔یہ صورتحال مسلمانوںکیلئے ایک انتباہ ہے مگر مقامِ افسوس ہے کہ اس کے تدارک اور توڑ کیلئے ابھی تک کسی مسلم ملک نے حکمت عملی یا پالیسی ترتیب نہیں دی۔ عرب ممالک کے حکمرانوں کا سب سے بڑا ذریعہ آمدنی پیٹرول ہے جو بہت جلد ختم ہونے والا ہے لیکن حکمرانوں نے کسی بات سے سبق نہیں سیکھا۔ وہ آج بھی پٹرول پر کلی انحصار کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام ملکوں اور قوموں کی تاریخ عروج و زوال سے عبارت ہے مگر کبھی کبھی تبدیلی اس برق رفتاری سے واقع ہوتی ہے کہ پوری دنیا حیران رہ جاتی ہے یہی صورتِ حال خلیج عرب اور افریقہ کے مسلم ممالک کی بھی ہے جو 50 سال قبل تک خواب و خیال میں بھی نہ سوچ سکتے تھے کہ اتنی جلدی وہ عالمِ عرب ہی کے نہیں پوری دنیا کے امیر ترین اور قابل توجہ ممالک بن جائیں گے۔آج یہاں کے ریگستان کالا سونا اُگل رہے ہیں اور ہر طرف دولت کی ریل پیل ہے آج تیل پیدا کرنیوالے مسلم ملکوں کی آمدنی کا 75 فیصد واحد ذریعہ صرف پیٹرول ہے مگر وہاں کے عوام اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ پیٹرول پر ہمیشہ انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کہ پٹرول کے بہتے ہوئے چشموں کے خشک ہونے سے پہلے سبز اور سفید انقلاب لانے کی تیاریاں کی جائیں۔ آج بظاہر 60 ممالک میں مسلم حکومت ہے مگر ملتِ اسلامیہ پر جو کڑا وقت آ پڑا ہے اس سے قبل ایسا وقت کبھی نہ آیا تھا۔ گزشتہ فروری میں یو این او کی ایک رپورٹ میں سعودی عرب کے بارے میں ایک مضمون سپردِ قلم کیا گیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ انگلینڈ میں اسلحہ بنانے والی سب سے بڑی کمپنی جس کا نام’’برٹش ایرو سپیس‘‘ ہے کا 25 فیصد اسلحہ بنانے کا کاروبار محض سعودی عرب کی دولت پر منحصر ہے۔ برٹش ایرو سپیس جسکے پانچ ہزار ملازمین اور ماہرین جسے سعودی حکومت نے نہایت اعلیٰ تنخواہوں پر ملازم رکھا ہے اسکے اسلحے کی تجارت کی نگرانی کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ کر دیا ہے کہ تیل سے مالا مال اس ملک کی مالی حالت پہلے جیسی تگڑی نہیں رہی۔ قرضوں کی بھرمار کے علاوہ تیل کی قیمت میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ عراق و امریکہ جنگ کے بعد سعودی عرب میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ مغربی ممالک سے قیمتاً اسلحہ خرید سکے یہی وجہ ہے کہ چھ لاکھ بیرل پیٹرول برطانیہ کو دیا جاتا رہا ۔ فنانشل ٹائمز کی ایک حالیہ اشاعت میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب اور عرب امارات کی سالانہ آمدنی اب محض 230 بلین ڈالرز رہ گئی ہے جبکہ یورپ کے بیشتر ممالک کی سالانہ آمدنی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ علاوہ ازیں عربوں کے سرمائے میں سے 900 بلین ڈالرز مغربی ممالک اور امریکہ کے بینکوں میں جمع ہیں جنہیں مغربی ممالک اپنی ترقی کیلئے بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ اقتصادیات کے علاوہ سیاسی طور پر بھی عرب ممالک’’پس ماندہ‘‘ہیں1971 میں جب برطانیہ نے یہ اعلان کیا کہ اس سال کے آخر تک اس کی فوجیں پورے خلیج عرب کو خالی کر دیں گی اس اعلان کے بعد خلیج عرب کی نو ریاستوں قطر ،بحرین،ابوظہبی ، دوبئی ،شارجہ، عجمان ،بحیرا، راس الخیمہ اور ام القوین کے سربراہوں نے ایک وفاق بنا کر برطانوی فوجوں کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی لیکن بہت سے خفیہ اور طویل اجلاسوں، سعودی عرب ،کویت اور برطانیہ کی کوششوں کے باوجود اتحاد کی یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی آخر پہ سات عرب ریاستوں نے’’متحدہ عرب امارات‘‘کا وفاق بنا لیا مگر قطر اور بحرین نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور اپنی آزاد مملکت کا اعلان کر دیا۔ یہ آزاد مملکتیں لاہور کے معروف محلے علاقے گوالمنڈی سے بھی چھوٹی ہیں اور دولت کا یہ عالم ہے کہ قطر جیسے ننھے منے ملک کے تیل کے محفوظ ذخیروں کی مقدار 85 ملین ٹن سے بھی زائد ہے۔ بہت عرصہ پہلے امریکی جریدے ٹائمز نے لکھا تھا کہ’’دنیا کی اقتصادیات کے سارے راستے ریاض سے گزر کر جاتے ہیں‘‘ـ اس ریاض اور دوسری خلیجی ریاستوں کا اضافی سرمایہ 900 بلین ڈالر مغربی ملکوں اور امریکہ کے بینکوں اور کھاتوں میں پڑا ہے جس میں سے ایک تہائی سرمایہ’’معاہدے‘‘ کے تحت کبھی نہیں نکالا جا سکتا ـ اور آج اسی جمع شدہ سرمائے سے مغربی ممالک کے ماہر اقتصادیات پوری دنیا کی اقتصادیات کو کنٹرول کر رہے ہیں ۔
میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے !