• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پچاس برس کا ہونے والا ہوں، دل تو نہیں مانتا مگر بڑھاپے میں قدم رکھنے لگا ہوں۔ بچپن، لڑکپن، جوانی سے لے کر آج تک میں بلاجواز اور بے تُکا تو نہیں بولا لیکن بہت بولتا رہا۔ مگر اب ایسا نہیں ہے یا تو میں میچور ہو گیا ہوں، تھوڑا بڑا ہو گیا ہوں یا پھر انسان غفلت کی نیند سو گیا ہے، بے حس ہو گیا ہے۔ الغرض جب سے یہ سماج بدلا ہے تب سے میرا مزاج بدلا ہے۔ اب تو میں بہت کم بولتا ہوں۔ بقول شاعر۔

ست رنگیاں بولیاں بول کے

اساں سر جھکایا تے چُپ لگ گئی

بندہ بدلے نہ، سنگ سماج بدلے

کسے کرم کمایا تے چُپ لگ گئی

کوئی مرضی کا بندہ، کوئی محرم راز ملتا ہے تو تب بات کرنے کو دل مانتا ہے، بس کوئی یار ملے تو، حُبدار ملے تو اور پیار ملے تو ہم بولتے ہیں ورنہ کم بولتے ہیں، لیکن کل تو کمال ہی ہو گیا، ہم اتنا بولے کہ زبان و بیان کے بھی گھنگرو ٹوٹ گئے، کل میں دفاعی تجزیہ کار، سابق ڈائریکٹر ISPR بریگیڈیئر (ر) صولت رضا کے آستانے پر مدعو تھا۔ زندگی میں ایسے بھی لوگ ملتے ہیں، دیکھتے ہی آنکھوں کو اچھے لگتے ہیں، ایک اکیلا دل زندگی مشکل، لوگ بیگانے نہ جانے دل کی منزل۔ بریگیڈیئر صاحب نے مجھے جس محبت اور تکریم و احترام سے نوازا میں اسے تا زندگی بھول نہیں پاؤں گا۔ موصوف کبھی کیک، کبھی سینڈ وچ اور کبھی کباب اُٹھاتے پلیٹ میں رکھ کر میرے آگے کھڑے ہو جاتے۔ کبھی شربت اور کبھی اپنے ہاتھوں سے بنا کر چائے پلاتے رہے۔ انہوں نے مجھے اپنی لاجواب بلکہ لازوال کتب کے تحائف بھی عنایت فرمائے۔ ’’پیچ و تابِ زندگی‘‘ اور ’’غیر فوجی کالم‘‘ ان دو کتب پر میں پھر کبھی لکھوں گا۔ آئیں آج ان کی کتاب ’’کاکولیات‘‘کے حوالے سے بات کریں۔ 17اگست 1988ء کو فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران شہید ہونے والے نامور ادیب اور ڈائریکٹر ISPR بریگیڈیئر صدیق سالک اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ”صولت رضا کی فوجی زندگی کا بیشتر حصہ پہاڑوں پر گزرا۔ اس کا پہلا پڑاؤ کاکول تھا جس کی رُوداد آپ کے سامنے ہے۔ اس کی دوسری اڑان بلوچستان کی طرف تھی جس کی آنچ کسی اور رنگ میں ظاہر ہوگی۔ اگر کاکول کی سنگلاخ زمین پر پاؤں مار مار کر صولت رضا کا قد گھس گیا ہے تو اسے فکر نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ”کاکولیات“ نے اس کا ادبی قد اونچا کر کے اس کی تلافی کر دی ہے۔ اللہ اس کے قلم کو اتنی طاقت اور طراوت بخشے کہ وہ ادبی بٹالین کے ایجوٹنٹ سے اس کا کمانڈنگ افسر بن جائے“۔ اس کتاب کی قبولیت و مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ یہ ”کاکولیات“ کا 32واں ایڈیشن ہے جو ابھی شائع ہوا ہے۔ بعنوان عرضِ مصنف بریگیڈیئر صولت رضا اس کتاب کے ابتدائی صفحات پہ رقمطراز ہیں کہ’’میری یہ کتاب پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں زیر تربیت کیڈٹ کی آپ بیتی ہے جس کا پہلا ایڈیشن 1976ء میں برادرِ عزیز عبدالوحید سلیمانی کی زیر نگرانی ادارہ مطبوعات سلیمانی اردو بازار لاہور نے شائع کیا۔ ’’کاکولیات‘‘ کی طبعی عمر 2026ء میں پچاس برس ہو جائے گی۔ پاک افواج میں اعلیٰ ترین سطح پر ”کاکولیات“ کو سراہا گیا۔ آرمی لائبریریوں کے لیے کتاب کی خریداری کی گئی۔ اخبارات و جرائد میں پذیرائی ملی۔ میرے لیے سب سے اہم اور یادگار ”شاباش“ اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاء الحق کی جانب سے تھی جنہوں نے عسکری تقریبات میں متعدد بار سامنا ہوتے ہی کیپٹن صولت رضا کی ”کاکولیات“ کی پرجوش الفاظ میں تعریف کی اور تصنیف و تالیف کے سلسلے کو جاری رکھنے پر زور دیا۔ ایک مرتبہ لاہور ایئر پورٹ پر مجھے اونچی آواز میں تلقین کی کہ ”کاکولیات“ تو کیپٹن صولت رضا نے لکھی تھی ... اب میجر صولت رضا کو ”صولتیات“ رقم کرنی چاہیے۔ ہلال میگزین کے مدیر ڈاکٹر یوسف عالمگیرین فلیپ پر لکھتے ہیں کہ ”عسکری ادب میں ”کاکولیات“ ایک ٹریڈ مارک کی حیثیت رکھتی ہے، گویا عسکری ادب کاکولیات کے بغیر نامکمل ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں گزرے شب و روز اور تربیتی مراحل کے حوالے سے ”کاکولیات“ اولین ترین اور مستند کتاب ہے۔ مصنف نے کتاب میں PMA کی تربیت اور پیشہ ورانہ سختیوں کو جس ہلکے پھلکے پیرائے میں پیش کیا وہ انہی کا خاصہ ہے۔ بریگیڈئر صولت رضا ایک سکہ بند اور مستند لکھاری ہیں جن کی ہر تحریر میں شگفتگی، چاشنی اور روانی کا پہلو نمایاں ہے۔ فوج میں کمیشن حاصل کرنے سے پہلے انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا اور عملی تربیت کے لیے روزنامہ نوائے وقت سے بھی منسلک رہے اور پھر یہی تجربہ انہیں گھما پھرا کر ISPR لے آیا۔ ان کے کالموں میں بھی کہیں کہیں ”کاکولیات“ کی جھلک نظر آتی ہے، قارئین کو امید ہے کہ آپ مزید کتب بھی تحریر کریں گے۔ میں ذاتی طور پہ بھی بریگیڈیئر صولت رضا سے کہوں گا کہ آپ بہت ہی اچھے لکھاری ہیں پلیز قارئین کو مزید کتب بھی دیں جن میں ’’کاکولیات‘‘کی جھلک نمایاں ہو۔

تازہ ترین