• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ چھِڑ جانے سے مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن درہم برہم ہوچکا ہے، ایک دوسرے کے نظریاتی دشمن سمجھے جانے والے گزشتہ کئی سال سے بلاواسطہ مختلف محاذوں پر مدمقابل تھے،اگر ایک طرف جوہری طاقت کے حصول کیلئے کوشاں ایران کی سرپرستی میں محورِ مزاحمت خطے میں اسرائیل اور امریکہ کے مفادات کوزک پہنچارہا تھا تو دوسری طرف اسرائیل کو امریکہ و مغرب کی بھرپور حمایت حاصل تھی، اسرائیلی حملے سےقبل ایران اور اسرائیل دونوں ایک دوسرے سے کھلم کھلا ٹکرانے سے کتراتے تھے، تاہم گزشتہ چند دنوں میں رونماء ہونے والے واقعات نے خطے کی صورتحال کو شدید عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے، ایسے نازک حالات میں بیانیہ کی جنگ بھی شروع ہوچکی ہے اور سوشل میڈیا پر نت نئی سازشی تھیوریاں بھی منظرعام پر آرہی ہیں،اس حوالے سے اسرائیل سے شائع ہونے والے اخبار یروشلم پوسٹ کی ایک رپورٹ نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اس پر اپنا غیرجانبدارانہ تجزیہ پیش کروں۔ اسرائیل کی ہیبریو یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اینڈ مڈل ایسٹرن اسٹڈیز سے وابستہ اسکالر پروفیسر ایلی پودے نے اپنے مقالے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ ایران کے خلاف اسرائیلی حملہ پورے مشرق وسطیٰ بشمول عرب ممالک کے مفاد میں ہے، انہوں نے اسرائیلی حملے کے تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہےکہ ایران کا کمزور پڑنا مشرق وسطیٰ جنگ کے خاتمے، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور مسئلہ فلسطین کے متفقہ حل تک پہنچنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ بلاشبہ خلیج عرب کے حکمرانوں بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ایران کے حوالے سے نظریاتی تحفظات ضرور رہے ہیں مگر کسی بھی عرب ملک نے کبھی ایران پر اسرائیلی حملے کی عوامی حمایت نہیں کی ۔اپنے مضمون میں اسرائیلی اسکالر نے یہ دعویٰ کیاہےکہ اگرچہ عرب حکمران عوامی سطح پر تو اسرائیل کی مخالفت کرتے ہیں لیکن درپردہ ایران کو کمزور کرنے کی اسرائیلی کوششوں کی حمایت بھی کرتے ہیں، مصنف نے اپنی ریسرچ میں یہ امر بالکل نظرانداز کردیا کہ اس وقت ایرانی حملے کے تناظر میں عرب دنیامیں لاوا ابل رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کاتمام میڈیا اسرائیل مخالف جذبات کی عکاسی کررہا ہے، معاہدہ ابراہیمی کے تحت متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے لیکن اماراتی قیادت نے حالیہ ایرانی حملے کیلئے اسرائیل کو کسی قسم کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی، سعودی عرب نے مشرق وسطیٰ کے سب سے اہم ترین ملک کے طور پر ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنا برادر ملک قرار دیا، مشرق وسطیٰ کےممالک بشمول عراق، شام، کویت اور الجزائر کی خارجہ پالیسی اسرائیل مخالف ہے، عمان اور قطر نے اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی تعلقات سے ہمیشہ گریز کیا ہے، ایران پر حملے کیلئے اسرائیلی میزائل جس جس عرب ملک کی فضائی حدود سے گزرے ہیں، وہاں اسرائیل مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں، ان حالات میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی عرب حکمران ایران حملے کی حمایت کا سوچ بھی سکے۔اگرچہ اسرائیلی اسکالر نے اپنے تجزیہ میں کسی عرب ماہر، دانشور یا صحافی کی رائے شامل نہیں کی لیکن یہ دعویٰ وثوق سے کیا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ایران حملے پر شکرگزار ہیں، میری نظر میں یہ استدلال اس بناء پر َرد کیے جانے کے قابل ہے کہ اسرائیلی حملے کے بعد خلیجی ممالک میں بڑھتی بے چینی نے عرب حکمرانوں کو شدید تشویش کا شکار کردیا ہے، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ خطے میں ایران کی حمایت یافتہ قوتیں کمزور ضرور ہوئی ہیں لیکن مکمل ختم نہیںہوئیں، اگردیگر خلیجی ممالک جنگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں تو ایسے ناپسندیدہ حالات عرب ممالک کی مضبوط معیشت کو غیرمستحکم، بیرونی سرمایہ کاری اور داخلی سلامتی کوشدید خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں، اسرائیل کے پڑوسی ممالک اردن اور مصر کے تعلقات میں بھی تناؤ آ سکتا ہے، جنگی صورتحال سے مختلف عرب ممالک کے اندرونی حالات شدید متاثر ہوسکتے ہیں، اسرائیل کے پڑوسی ممالک کی حکومتوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے،اسی طرح عرب ممالک میں موجود امریکی اڈے انکے لئے وبالِ جان بن سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے حالات میں اسرائیلی حملے کس طرح عرب ممالک کیلئے مفید ثابت ہونگے؟ میری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کے بعد کسی بھی عرب حکمران کا اسرائیل کی حمایت میں ایران کی مخالفت کرنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہے، مضمون نگار نے اس ناقابلِ تردید حقیقت سے بھی آنکھیں چُرائیں کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کے مطابق ایران کے خلاف یکطرفہ فوجی کارروائی ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔میری نظر میں اسرائیلی جارحیت نے مڈل ایسٹ کو ایک مرتبہ پھر مشرق کی جانب دیکھنے پر مجبور کردیا ہے، یوکرائن جنگ میں اُلجھا روس فی الحال اس پوزیشن میں نہیںکہ وہ ایران کی حمایت میںکھل کرسامنے آسکے لیکن چین کسی صورت خطے میں اپنا قریبی اتحادی کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا، چین اپنی ان کاوشوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دے گا کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے مابین غلط فہمیاں ختم کروا کے دونوں برادر ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کامیاب ہوا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیلی حملے کی حمایت کیلئے تمام دعوے اور سازشی تھیوریاں گمراہ کُن قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں، جنگ کبھی تنازع کا دیرپا حل نہیں ہوتی،مشرق وسطیٰ میں لگی آگ کوبجھانے کیلئے ڈائیلاگ کا راستہ جلدیابدیر اختیار کرنا پڑے گا، اس وقت عالمی برادری کی نظریں امریکہ کی جانب مرکوز ہیں کہ وہ کیسے کامیاب سفارت کاری کامظاہرہ کرتا ہے، اس حوالے سے میں آنے والے دنوں میں سعودی عرب اور قطر کوخطے میں کلیدی کرداراداکرتے دیکھ رہا ہوں،دوسری طرف سوشل میڈیا پر وائرل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ایران کے معزول بادشاہ کے جانشین بیٹے رضا پہلوی کے دورہ اسرائیل کے دوران ملاقات کی تصاویر اورایرانی قیادت کے خلاف مشترکہ بیان سوچنے سمجھنے والوں کیلئے بہت سی نشانیاں رکھتا ہے۔

تازہ ترین