• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس بار عالمِ اسلام پر جو اُفتاد آن پڑی ہے، اُس نے ایک طرف یاس کے اندھیرے بہت گہرے کر دیے ہیں جبکہ دوسری جانب عظیم امکانات کے اجالے بڑے روشن کر دیے ہیں۔ ایک مدت سے مسلمانوں کی یہ پہچان رہی ہے کہ وہ آپس میں لڑتے اور اَپنے عظیم رہنماؤں کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تعداد میں دو اَرب سے بھی زیادہ ہیں اور بفضلِ خدا اُن کے لق و دَق صحراؤں میں تیل اور گیس کے چشمے اُبل رہے ہیں، مگر وہ جہاں بانی کے منصب سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ آج دنیا میں ۵۷ سے زائد مسلم ریاستیں موجود ہیں جن پر مبنی ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ بھی قائم ہے، مگر عالمی سطح پر اِس کا وزن کم ہی محسوس کیا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ اسرائیل جس کا رقبہ اور آبادی انتہائی محدود ہیں، اُس کی ہیبت پوری مسلم دنیا پر طاری ہے۔ اُس نے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا ہدف حاصل کرنے کے لیے امریکی حمایت سے آزاد اَور خودمختار اِیران پر ۱۳ جون ۲۰۲۵ء کو دھاوا بول دیا ہے جس کے باعث تیسری عالمگیر جنگ کے خطرات منڈلانے لگے ہیں۔

فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان مختصر مدت کی جنگیں ہوئیں جن میں اسرائیل فتح یاب ہو کر فلسطینی علاقوں پر قابض ہوتا آیا ہے، چنانچہ یہ تاثر پیدا ہوتا گیا کہ اسرائیل کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ سالہاسال سے مصر، شام اور لبنان نے اسرائیل کی توسیع پسندانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کیا، مگر زبانی باتوں کے سوا عرب ممالک نے اُن سے کوئی عملی تعاون نہ کیا۔ پھر حالات ایسا رُخ اختیار کر گئے کہ مصر کے صدر اَنور السادات کے لیے اسرائیل سے معاہدہ کرنے کے سوا اَور کوئی چارہ نہیں رہا تھا جس پر بیشتر مسلم ملکوں نے اُن کے خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کیا تھا۔ اتفاق سے اُن دنوں راقم الحروف قاہرہ میں موجود تھا۔ اُس وقت مصر میں پاکستان کے سفیر جناب ڈاکٹر ایس ایم قریشی تھے جو خاکسار کے قدردان تھے۔ اُنہوں نے مجھے مصر آنے کی دعوت دی۔ مارچ ۱۹۷۹ء کے اواخر میں میرا سعودی عرب جانے کا پروگرام تھا۔ مَیں نے وہاں ایک ہفتے قیام کیا اور ۴؍اپریل کی صبح جدہ سے قاہرہ پہنچا۔ یہ وہی شبِ ظلمت تھی جب بھٹو صاحب سولی پر لٹکا دیےگئے تھے۔ مَیں جب سفیرِ پاکستان کی اقامت گاہ پر پہنچا، تو ڈاکٹر قریشی اور اُن کی اہلیہ نے میرا اِستقبال کیا۔ اُن دونوں کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ اُنہوں نے دل شکستہ لہجے میں بتایا کہ بھٹوصاحب سولی پر لٹکا دیے گئے ہیں۔ ہم خاصی دیر تک افسردہ ماحول میں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ دوسرے روز جناب انور السادات کو پارلیمنٹ سے خطاب کرنا تھا۔ مَیں نے سفیر صاحب کے توسط سے اجازت نامہ حاصل کیا۔ جناب انوار السادات نے سہل زبان میں اُن وجوہات پر اظہارِ خیال کیا جو اِسرائیل سے معاہدہ کرنے کا باعث بنی تھیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ مصر تنِ تنہا اسرائیل کی تباہ کاریوں کے آگے ڈٹا رہا جس کے نتیجے میں اُس کی معیشت اور عسکری طاقت زوال پذیر ہوتی گئی۔ کوئی عرب ملک ہماری مدد کو نہیں پہنچا اور آخرکار ہمارے حوصلے جواب دے گئے۔

مسلمانوں کی بےحسی اور اَمریکہ کی پشت پناہی کے سبب اسرائیل نے پوری تیاری سے ایران کے خلاف ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا۔ پہلے ہی ہلّے میں اُس کی عسکری اور اَیٹمی قیادت ختم کر ڈالی اور اُن مقامات کو بھی نشانہ بنایا جہاں پُرامن مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی کا عمل جاری تھا۔ یہ ایک ایسا مہلک وار تھا جسکے بعد ایران کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا محال تھا، مگر بہادر اَور غیرت مند ایرانی قوم نے دوسرے ہی روز اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کر کے جارحیت کا ایک ایسا جواب دیا جس سے پوری دنیا حیرت زدہ رَہ گئی۔ ایران مسلسل پانچ روز سے اسرائیل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے اور شجاعت اور اَعلیٰ حکمتِ عملی کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ اُس نے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اَمریکہ کے ارادے بڑی حد تک خاک میں ملا دیے ہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے کہ عالمی حالات مسلمانوں کے حق میں ڈھلتے جا رہے ہیں اور اِن میں پاکستان اور چین کا کردار کلیدی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اِس کے علاوہ بعض مسلم حکمران عظیم تبدیلی سے گزرنے کے نتیجے میں زبردست قوتِ ارادی کے حامل ہو گئے ہیں۔ ایک زمانے میں ترکیہ کے اسرائیل سے تعلقات بہت گہرے اور قریبی تھے، لیکن اب ایک مدت سے صدر اردوان اسلامی کاز میں انتہائی فعال کردار اَدا کر رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ترکیہ، پاکستان اور اِیران کا دفاعی اتحاد وُجود میں آنے والا ہے۔ تینوں ملک جنرل ایوب خاں کے زمانے میں آر سی ڈی کے نام سے ایک ہمہ گیر معاہدے میں منسلک ہوئے اور اُس سے تینوں ملکوں کے عوام کو زبردست فائدہ پہنچا۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آج کے عہد میں اِن تینوں ملکوں کا حقیقی اتحاد مسلم اُمہ میں تازہ رُوح پھونک دے گا۔

مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ خیرخواہ دوستوں کی کوششوں سے سعودی عرب اور اِیران ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں اور اَب ایران کے حق میں آواز اُٹھانے میں سعودی عرب پیش پیش ہے۔ چین کی کوششوں سے افغانستان اور پاکستان کے مابین تعلقات میں حیرت انگیز طور پر بہتری آ گئی ہے۔ سب سے اہم واقعہ جس نے عالمی برادری کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور پاکستان کی دھاک بٹھائی، وہ چار روزہ جنگ میں بھارت کی عبرت ناک شکست ہے۔ اِن حیرت انگیز واقعات کا یہ اثر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ امریکی کانگریس نے قرارداد منظور کی ہے کہ صدر ٹرمپ ایران کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ اب جگر لخت لخت ازخود جمع ہو رہے ہیں۔ دراصل اسرائیل کی تمام تر غیرقانونی اور غیرانسانی حرکتوں کے احتساب کا وقت آن پہنچا ہے جس کی پیدائش کو قائدِاعظم نے ناجائز پیدائش قرار دِیا تھا۔ یہی وقت ہے خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان تیزی سے بیدار بھی ہو رہے ہیں اور اُنہیں اپنی فتح و کامرانی کا یقین ہوتا جا رہا ہے۔ ایران کو بھی کامل شعور حاصل ہو چکا ہے کہ دوست کون ہے اور دُشمن کون۔

تازہ ترین