• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

موجودہ منٹو پارک جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے اس پارک سے ماضی کا پارک بالکل مختلف تھا اور اس کے ارد گرد کوئی چار دیواری نہیں تھی اور اس کے پچھلی طرف بڈھا دریا (بڈھا راوی )بہتا تھا۔ راوی دریا نے شاہی قلعہ کی دیواروں کے ساتھ بہتے بہتے اپنا راستہ تبدیل کرنا شروع کر دیا تھاکبھی راوی موجودہ جگہ پر بڑے بھرپور انداز میں بہتا تھا ۔یہ وہ راوی ہے جس کے اندر کبھی چھوٹے بحری جہاز /بیڑے بھی چلا کرتے تھے ایک بہت ہی بڑی کشتی جس میں کم وبیش سو افراد بیٹھ سکتے تھے وہ کشتی ہم نے خود راوی کے پرانے پل کے نیچے ایک ستون کے ساتھ بندھی ہوئی کئی برس دیکھی تھی ۔

راوی پر ماضی میں کئی فلموں کی شوٹنگیں بھی ہوتی رہیں خصوصاً کامران کی بارہ دری پر بھی کئی فلموں کی شوٹنگیں ہوتی رہی ہیں اور کامران کی بارہ دری آج جس شکل وصورت میں آپ دیکھ رہے ہیں ایسی کامران کی بارہ دری کبھی نہ تھی مگر یہ تو ایک کھنڈر کی صورت میں تھی اور ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے وہ ٹوٹی پھوٹی کامران کی بارہ دری دیکھی ہوئی ہے مگر ایک زمانے میں یہ کامران کی بارہ دری دریا کے دوسرے کنار ے پر تھی اور ہم موٹر سائیکلوں پر ریت میں مشکل سے موٹر سائیکل چلاکریا پیدل بھی کامران کی بارہ دری پر آ جاتے تھے جبکہ کامران کی بارہ دری پر ہم سامنے سے کشتی کے ذریعے آتے تھے سیلاب کے دنوں میں کامران کی بارہ دری دریا کے درمیان میں آ جاتی تھی دریا کے دوسرے کنارے پر لیچی کے باغات اور کھیت ہوا کرتے تھے بڑی ہریالی تھی کبھی لوگ دریائی بیڑے کے ذریعے بھی دریا پار کر کےجایا کرتے تھے کیونکہ راوی کے ارد گرد کبھی چھوٹے چھوٹے دیہات بھی تھے جس کا اب کوئی نام ونشان نہیں ہر اتوار کو لاہوریئے اور لاہور سے باہر کے لوگ یہاں پکنک منانے آیا کرتے تھے بلکہ بعض فلمی ستارے بھی اتوار کو دریائے راوی پر پکنک منایا کرتے تھے ۔بہت اچھا دور تھا راوی کا پانی اتنا صاف ستھرا ہوتا تھا کہ آپ کو اس میں مچھلیاں تیرتی نظر آتی تھیں کچھوے اور کوئی دس /بارہ اقسام کی مچھلیاں یہاں ہوتی تھیں راوی کےکھگے بڑے مشہور تھے ۔ہمیں یاد ہے لاہور کی گلیوں میں باقاعدہ مچھلی فروخت کرنے والے یہ آواز لگایا کرتے تھے کہ راوی کے کھگے آگئے۔لاہوریئے راوی کے کھگے بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے اب تو مدت ہوئی کسی نے یہ آواز سنی ہو ۔اب پتہ نہیں یہ راوی کے کھگے آتے ہیں یا کیڑے مکوڑے وہ سنہرا دور جس کا ذکر میاں نواز شریف اکثر نجی محفلوں میں کرتے رہتے ہیں پتہ نہیں کبھی واپس آئے گا یا نہیں ۔

یہ بات بھی بڑی حیران کن ہے کہ راوی میں ہر سال ایک /دو افراد ضرور ڈوب جاتے تھے راوی کے کنارے بھنگ کے پودے بھی خاصی تعداد میں ہوتے تھے اور یہاں ملنگ اور جعلی پیروں کی تعداد بھی کافی ہوتی تھی جو الٹے سیدھے جادو ٹونے کرتے رہتے تھے۔ راوی پر کبھی آپ کو ٹھنڈی ہوائیں اور پرسکون ماحول ملتا تھا اب پتہ نہیں راوی شہر میں جو نیا شہر بسایا جا رہا ہے اس کی کیا صورت ہو گی۔ بھارت تو ہمیشہ سے شرارت کرتا آیا ہے کہ جب بھی ان کے ہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو وہ راوی، ستلج اور بیاس میں سیلابی بارشوں کا پانی چھوڑ دیتے ہیں اب ہمیں تو علم نہیں اگر کل کو راوی میں بھارت پانی چھوڑ دیتا ہے تو روڈا والے جو شہر راوی دریا کی زمین پر بسا رہے ہیں اس کا کیا ہو گا اور یہ زمینیں حکومت کس طرح دے رہی ہے اور وہاں پلازے اور عمارات جو تعمیر کی جا رہی ہیں اس میں کن کن لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔ہم نے کافی ریسرچ کی اور کئی پرانے اخبارات کی فائلیں کھنگالیں اور اس تلاش میں رہے کہ لاہور میں جو کام انگریز صاحب بہادر کے افسروں نے کیا اس میں کوئی تو کہیں تو کرپشن کی کوئی ایک خبر مل جائے مگر انگریزوں کے جانے کے بعد بھی کوئی ایسی خبر ہماری نظر سے نہیں گزری اور نہ انگریز بہادر نے موجودہ حکومت کی طرح جگہ جگہ اپنی تصاویر اور نام کی تختیاں لگائیں۔ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں بے شمار جگہوں پر اپنی تختیاں لگوائیں بے شمار منصوبے شروع کئے آج ان کا کوئی نام ونشان نہیں ۔پنجاب میں موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کو جو بھی یہ مشورے دے رہا ہے کہ آپ جگہ جگہ اپنے نام کی تختیاں لگا دیں وہ ان کا بالکل ہمدرد نہیں بلکہ عوام میں یہ کوئی اچھا تاثر مرتب نہیں ہو رہا۔ن لیگ کی حکومت بہت اچھے منصوبے شروع کرتی ہے مگر بعد میں ان کا فالو اپ نہیں ہوتا ن لیگ کے پہلے دور کے منصوبے آج کہیں نظر نہیں آ رہے ہمارا مشورہ ہے کہ پنجاب حکومت کو چاہئے کہ وہ تھوڑا سا جائزہ گوروں کے دور حکومت کا بھی لے لیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا آپ نے لاہور کو قدیم روایات کے زندہ رکھنا ہے ؟یا پھر اس شہر کو جدید بنانا ہے لاہور قدیم روایات کا امین ہے لہٰذا اس شہر کے صرف اندرون شہر کو جو 14دروازوں کے اندر ہے اس کو قدیم روایات ،تہذیب اور ثقافت کے ساتھ ہی زندہ رکھنا چاہئے وہ لاہور جس میں پھیری والے، ٹھیلے والے، ریڑھی والے مختلف اشیاء آواز لگا کر فروخت کیا کرتے تھے وہ لاہور شہر جہاں تھڑوں پر رات کو لوگ بیٹھ کر بات کیا کرتے تھے وہ میلے مکان جن میں گوڑی چٹی لڑکیاں اور خواتین مکانوں کی دہلیز اور جھروکوں میں بیٹھ کر بال سنوارا کرتی تھیں وہ لاہور جہاں کی تنگ گلیوں میں شرارت سے بھری آنکھیں نظر آیا کرتی تھیں وہ حسن جو ہم نے ان گلیوں میں دیکھا وہ اب کہیں نظر نہیں آتا حتیٰ کہ اب ان بچوں کے وہ لال اور گلابی چہرے بھی اب نظر نہیں آتے۔ پچھلے ہفتے ہم منٹو پارک پر بات کررہے تھے۔

موجودہ منٹو پارک ماضی کے منٹو پارک سے بالکل مختلف ہے اس پارک میں اندرون لاہوریئے مختلف کھیلیں کھیلنے کے لئے آیا کرتے تھے ۔وہ منٹو پارک جو ہم نے دیکھا اس کا نظارہ اور منظر ہی کچھ اور تھا کس طرح ہر عمر کے افراد یعنی سات سال کے بچوں سے لیکر 70/80برس تک کے لوگ آپ کواس پارک میں نظر آتے تھے لاہور کی کئی روایتی کھیلیں بھی آپ کو نظر آتی تھیں۔ کاش میاں نواز شریف اور ان کے پی ایس او مسٹر وقار اس منٹوپارک کو دوبارہ زندہ کرسکیں۔پاکستان میں کرکٹ کے میدان میں جو نامور کھلاڑی پیدا ہوئے یہ پارک ان کی نرسری تھی آپ بے شک منٹوپارک کی تزئین و آرائش کرتے اس کی شکل وصورت تبدیل کرتے مگر اس کی روایتی ثقافت اور ماحول کوتو برقرار رکھتے ۔ (جاری ہے )

تازہ ترین