انصار عباسی
اسلام آباد:آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے سال 2024-25 کیلئے جاری کردہ اپنی آڈٹ رپورٹ میں خیبر پختونخوا حکومت کے مالی معاملات میں سنگین بے ضابطگیوں کا پتہ لگایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 147؍ ارب روپے مالیت کے 8؍ ٹھیکے غیر شفاف انداز میں دیے گئے جو کہ مالی نظم و ضبط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مالی سال 2023-24 کا احاطہ کرنے والی اس رپورٹ میں مجموعی طور پر 200؍ ارب روپے سے زائد مالیت کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان میں فرضی اخراجات، مشتبہ ادائیگیاں، خورد برد، زائد ادائیگیاں، غیرقانونی خریداری، سرکاری محصولات کی عدم وصولی یا خزانے میں جمع نہ کرانا شامل ہیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق کلیدی بے ضابطگیاں درج ذیل ہیں: انتظامی کوتاہیاں اور سروس ڈلیوری کے مسائل: 9 ارب روپے (7 کیسز)، فرضی اخراجات، مشکوک ادائیگیاں، اور خورد برد: 98 کروڑ 20 لاکھ روپے (22 کیسز)، غیر منظم بجٹ سازی اور فنڈز کا غیرقانونی اجراء: 14 ارب روپے (3 کیسز)، غیرقانونی، بلا اجازت اور بلاجواز اخراجات: 4 ارب روپے (23 کیسز)، ٹھیکوں کی غیر شفاف الاٹمنٹ: 147 ارب روپے (8 کیسز)، تعمیراتی منصوبوں میں زائد ادائیگیاں: 2 ارب 80 کروڑ روپے (36 کیسز)، سرکاری خزانے کو نقصان: 11 ارب 60 کروڑ روپے (40 کیسز)، محصولات کی عدم وصولی یا خزانے میں جمع نہ کرانا: 41 ارب روپے (50 کیسز)، تنخواہوں کی زائد ادائیگی اور غیرقانونی بھرتیاں: 95 کروڑ روپے (17 کیسز)، غیرقانونی خریداری اور سرکاری اثاثوں کی بلا اجازت تحویل: 2 ارب 90 کروڑ روپے (15 کیسز)۔ رپورٹ میں واضح طور پر تجویز دی گئی ہے کہ خدمات کی عدم فراہمی اور اہداف کے حصول میں ناکامی کی وجوہات کی باقاعدہ تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ داروں کیخلاف اصلاحی اقدامات کیے جائیں۔ فرضی اخراجات، مشتبہ مالی لین دین، اور کرپشن میں ملوث افراد کیخلاف انکوائری کر کے رقوم واپس وصول کی جائیں اور سخت تادیبی کارروائی کی جائے، مالی نظم و ضبط کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ محکمہ خزانہ بجٹ سازی اور فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے وضاحت پیش کرے اور غیر ضروری یا بلاجواز اخراجات کی روک تھام کیلئے پالیسی مرتب کرے۔ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ٹھیکوں کی غیر شفاف الاٹمنٹ کی جامع تحقیقات کر کے ایسے معاہدے منسوخ کیے جائیں اور ذمہ دار افسران کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس کے علاوہ، زائد ادائیگیاں کرنے والے افسران اور ٹھیکیداروں سے رقم واپس لی جائے اور متعلقہ عملے کو جوابدہ بنایا جائے۔ ٹیکسز اور دیگر سرکاری واجبات کی عدم وصولی کیخلاف سخت اقدامات کیے جائیں اور یہ رقوم جلد از جلد قومی خزانے میں جمع کروایا جائے۔ مزید یہ کہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھرتی کیے گئے افراد اور انہیں دی گئی تنخواہوں کی بھی جانچ پڑتال کی جائے، رقم واپس لی جائے اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ جو افسران سرکاری گاڑیاں یا دیگر اثاثے بلا اجازت اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں، اُن سے یہ اثاثے واپس لے کر متعلقہ مجاز افسران کو دیے جائیں۔ ادھر خیبر پختونخوا حکومت کے ایک اہلکار نے کہا کہ آڈٹ رپورٹ میں ابتدائی مشاہدات اور رپورٹ کی گئی بے ضابطگیاں شامل ہیں، جو معمول کے عمل کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان معاملات کو متعلقہ محکمے کی اکاؤنٹس کمیٹیوں (DACs) میں زیر بحث لایا جاتا ہے اور بعد میں انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) میں طے کیا جاتا ہے جیسا کہ طریقہ کار میں درج ہے۔ اگر کسی کو قصوروار پایا جائے تو PAC کے پاس رقم کی وصولی اور ضروری کارروائی کا اختیار ہوتا ہے۔