کراچی (اے ایف پی)امریکہ کی جانب سے ایران کے ایٹمی ٹھکانوں پر کیے گئے فضائی حملوں نے دو بڑے سوالات کو جنم دیا ہے۔کیا یہ حملے واقعی مؤثر ثابت ہوئے؟ اور اب ایران کیا ردعمل دے گا؟۔مختلف بین الااقومی اداروں نے ایران پرامریکی حملے پراپنے تبصروں میںکہا ہے کہ ایران جوہری کھیل کو خطرناک مرحلے میں داخل کر سکتا ہے۔صدرٹرمپ فضائی کارروائی کوشاندار کارروائی قراردےرہا ہے مگر ایسے اشارے کم ہیں۔امریکہ کادوبارہ حملہ اسرائیل کولڑنے کاتاثر دے گا مگر یہ سیاسی طور پربہت مہنگاپڑے گا جبکہ ایران جواب میں محتاط مگر مؤثر جواب دینے کی کوشش کرے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی فضائی کارروائیوں نے ایران کے مرکزی جوہری مقامات کومکمل طور پر تباہ کر دیا، اور اسےشاندار عسکری کامیابی قرار دیا۔تاہم تہران نے اب تک اپنے ردعمل کے بارے میں بہت کم اشارے دیے ہیں۔یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ایٹمی مواد پہلے ہی وہاں سے منتقل کر دیا گیا تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایک انتہائی بڑی سرخ لکیر عبور کر لی ہے۔ایران ،اسرائیل جنگ میں امریکہ نے ایران کے تین اہم ایٹمی مراکز کو نشانہ بنایا، جن میں فردو کا یورینیم افزودگی پلانٹ بھی شامل ہے، جو تقریباً 90 میٹر (300 فٹ) زیر زمین واقع ہے۔جرمن ادارے برائے بین الاقوامی اور سلامتی امور کے ماہر حمید رضا عزیزی نے کہا کہ ایران شاید ٹرمپ کو ایک علامتی کامیابی دے کر اسرائیلی اہداف پر جوابی کارروائی کرے۔اس سے واشنگٹن جنگ سے دور رہے گا جبکہ تل ابیب پر دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ اگر اس کے بعد ٹرمپ کسی نئی ایرانی کارروائی کے بغیر دوبارہ حملہ کرتا ہے تو یہ جنگ کو اسرائیل کے لیے لڑنے کا تاثر دے گا — جو سیاسی طور پر بہت مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ایران ہوشیاری سے چال چلے، تو وہ اسے ایک سیاسی بم تھما سکتا ہے، عزیزی نے کہا کہ اس ساتھ ایران ہی جوہری کھیل کو ایک اور خطرناک مرحلے میں داخل کر سکتا ہے۔