• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں وائٹ ہائوس میں پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ظہرانے پر ہونے والی 2 گھنٹے کی ملاقات کو عالمی منظر نامے میں غیر معمولی اور تاریخی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ یہ ملاقات نہ صرف پاک امریکہ تعلقات بلکہ خطے اور پاکستان کی اندرونی سیاست کے تناظر میں بھی نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جارہی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے، مشترکہ مفادات اور موجودہ چیلنجز کے حل پر غور کیلئے ایک بڑی پیش رفت ثابت ہوئی ہے۔ ملاقات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیووینکوف جبکہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی شریک تھے۔ دوران ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل عاصم منیر کو ایک بااثر شخصیت اور ان سے ملاقات کو اپنے لئے اعزاز قرار دیا جبکہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں مثبت کردار ادا کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُن سے سندھ طاس معاہدے اور مسئلہ کشمیر پر اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی۔

پاک، امریکہ تعلقات ماضی میں ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اور جنرل عاصم منیر کے درمیان حالیہ ملاقات نے ان تعلقات میں گرمجوشی کا نیا باب کھولا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی کامیابی اور بھارت کی پسپائی نے خطے میں پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے اور پاکستان کی کامیابی دیکھ کر بھارت کو خطے کا چوہدری بنانےکے امریکی منصوبے میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے اور اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو خطے کی ابھرتی طاقت کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو پاکستان کیلئے خوش آئند پیش رفت ہے۔ دوسری طرف پاک بھارت جنگ میں جنرل عاصم منیر کی کامیابیوں، فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی اور عالمی سطح پر بڑھتی مقبولیت نے انہیں دنیا کی بااثر عسکری قیادت میں شامل کردیا ہے اور وہ عالمی سطح پر پاکستان کی طاقتور ترین شخصیات کے طور پر ابھرے ہیں۔ اسی طرح چین، ترکی، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ جنرل عاصم منیر کے مضبوط تعلقات نے بھی ان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ جنرل عاصم منیر کی امریکہ میں پذیرائی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات نے ایک طرف بھارتی حلقوں کو پریشان کردیا ہے اور بھارتی میڈیا اس ملاقات کو تنقید کا نشانہ بنارہا ہے، دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ اور جنرل عاصم منیر کی ملاقات پی ٹی آئی قیادت کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ آس لگائے بیٹھی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آتے ہی اُن کی اولین ترجیح عمران خان کی رہائی ہوگی مگر پی ٹی آئی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ملکوں کے درمیان تعلقات شخصیت پر نہیں بلکہ مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ جنرل عاصم منیر کے دورہ امریکہ کے موقع پر بھی پی ٹی آئی نے اپنی فوج مخالف پرانی روش جاری رکھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور جنرل عاصم منیر کی حالیہ ملاقات دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان کیلئے اہمیت کی حامل ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ نے پاکستانی کمپنیوں پر الزام لگاکر بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک نیشنل ڈیفنس کمپلیکس اور دیگر کئی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں اور امریکہ کو پاکستان کی دفاعی ساز و سامان کی خریداری پر بھی تحفظات ہیں جبکہ بھارت اپنے میزائل پروگرام کیلئے دنیا بھر سے کھلے عام ساز و سامان خرید رہا ہے مگر بھارتی میزائل پروگرام کو ساز و سامان سپلائی کرنے والی کمپنیاں امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں اور امریکہ نے بھارت کے میزائل پروگرام پر کبھی اس طرح کی پابندیاں عائد نہیں کیں جو امریکہ کے دوہرے معیار کی عکاس ہیں۔

اگر امریکہ، پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے اور دوستی کا خواہاں ہے تو امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اپنی دوہری پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ افغانستان میں بدلتی صورتحال، خطے میں چین کے بڑھتے اثرات اور بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے تناظر میں امریکہ کا پاکستان کی عسکری قیادت سے براہِ راست رابطہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے مگر عالمی سیاست میں غیر متوقع ملاقاتیں جہاں ایک طرف اہمیت کا حامل تصور کی جاتی ہیں، وہاں اس سے کچھ غلط فہمیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ جنرل عاصم منیر اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کو چین کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کہیں اس ملاقات سے پاکستان کی جانبداری پر سوالات جنم نہ لیں۔ چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے جس نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں دفاعی اور سفارتی سطح پر پاکستان کی دل کھول کر مدد کی اور شاید چین کی مدد کے بغیر بھارت سے جنگ جیتنا پاکستان کیلئے اس قدر سہل نہ ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت جلد چین کا دورہ کرے اور چینی حکام کو یہ باور کرائے کہ جنرل عاصم منیر کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات معمول کا حصہ اور امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کی ایک کوشش ہے اور امریکہ سے بڑھتے تعلقات پاک چین دوستی یا سی پیک پر کسی قسم کا منفی اثر نہیں ڈالیں گے۔

تازہ ترین