• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کوئی جانتا ہے کہ پچاس سال کے بعد وہ زندہ ہوگا یا نہیں؟ اس سے پہلے کہ میں ڈونلڈ ٹرمپ، نیتن یاہو اور علی خامنہ ای کے بارے میں لکھوں کہ ان میں سے کوئی بھی پچاس برس بعد زندہ نہیں ہوگا مجھے اپنے بارے میں بھی لکھنا چاہئے کہ پچاس برس بعد میں بھی زندہ نہیں رہوں گا۔ آج ہمیں اپنے عہدے، اختیارات اور دنیاوی مقام و مرتبے کی بڑی فکر ہے۔ ہم اپنے اس مقام و مرتبے کو قائم رکھنے کیلئے سب کچھ کر گزرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ پچاس سال بعد دنیا ہمیں کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ میں سوچ رہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی2025میں پاکستان اور بھارت میں سیز فائر کرایا۔ اور جون 2025میں اسرائیل اور ایران میں سیز فائر کرایا۔ یہ دو سیز فائر کروا کےکر وہ امن کا نوبل انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دو دو سیز فائر توکروا دیئے لیکن کشمیر میں بدستور بھارت کا ظلم و ستم جاری ہے اور غزہ میں اسرائیل روزانہ بمباری کرکے امداد کیلئے لائنوں میں کھڑے فلسطینیوں کو قتل کررہا ہے۔ یہ قتل عام اکتوبر 2023سے جاری ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ عالمی میڈیا اس قتل عام میں مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار کے درمیان بتا رہا ہے لیکن کچھ اسرائیلی اخبارات نے یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچا دی ہے۔ پچاس سال بعد صہیونی مکتب فکر نتین یاہو کو اپنا ہیرو قرار دے گا جس نے غزہ میں ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی نیتن یاہو کے دوست اور فلسطینیوں کے دشمن کے طور پر یاد کیا جائے گا لیکن مسلم ممالک کے ان حکمرانوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ’’غزہ ہولو کاسٹ‘‘ کو خاموشی سے دیکھتے رہے اورکبھی کبھی اس قتل عام کی مذمت میں کوئی بیان جاری کردیتے تھے یا پھر او آئی سی کے ذریعے کوئی قرار داد منظور کردیتے تھے۔ مسلم ممالک کے اکثر حکمران مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولے کو قرار دیتے رہے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد 181میں پیش کیا تھا لیکن کوئی بھی مسلم حکمران یہ نہیں بتاتا کہ اسرائیل اسی قرارداد کے ذریعے قائم ہوا اور پھر ہمیشہ اسی قرارداد کی دھجیاں بکھیرتا رہا۔اسرائیل نے ’’غزہ ہولو کاسٹ‘‘ کی وجہ اکتوبر 2023میں فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کا اسرائیل پر حملہ قراردیا لیکن کسی بھی مسلم حکمران نے یہ نہیں بتایا کہ حماس نے یہ حملہ اسرائیل پر نہیں کیا تھا بلکہ ان علاقوں کو واگزار کرانے کیلئے کیا جن پر اسرائیل نے 1948ءکے بعد قرارداد 181کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ناجائز قبضہ کیا کیونکہ قرار داد181کے تحت تقسیم فلسطین کے پلان میں یہ علاقے فلسطینی ریاست میں شامل کئے گئے تھے۔ یاد رکھئے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 1974ءمیں اپنی قرارداد 3314میں طے کرچکی ہےکہ غاصب اور قابض فوج کے خلاف حق خود ارادیت کیلئے مسلح جدوجہد جائز تصور ہوگی۔ میں حماس کی طرف سے اس حملے میں عورتوں، بچوں اور معمر افراد کو نشانہ بنانے کو درست نہیں سمجھتا لیکن حماس کا موقف ہے کہ انہوں نے فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ کرکے یہودی بستیاں بنانے والوں پر حملہ کیا کیونکہ اسرائیلی فوج نے غزہ کو محاصرے میں لیکر ہمارا پانی اور خوراک بند کر رکھی تھی۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر وہاں یہودیوں کو بسانا چاہتے ہیں۔ ایک فرنچ صحافی ’’جین‘‘ پیری فلیو نے غزہ کی تاریخ پرایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ 1965 ءسے زیرغور ہے۔ ابتدا میں فلسطینیوں کو یہاں سے نکال کر عراق یا لیبیا بھیجنے کا منصوبہ تھا۔ 1968ءمیں اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کیلئے ایک خصوصی یونٹ بنایا اور فلسطینیوں کو اردن کی طرف دھکیلنا شروع کیا جس پر غزہ میں مزاحمت تیز ہوگئی اور 1970ءمیں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (پی ایف ایل ایف) نے تین ہوائی جہاز اغوا کرلئے۔ کچھ مغربی مبصرین آج حماس کو ایران کی پراکسی قرار دیتے ہیں۔ پچاس سال پہلے پی ایل او اور آیت اللہ خمینی کے تعلقات پر شور مچایا جاتا تھا کیونکہ خمینی کے حامی پی ایل او سے فوجی تربیت لیتے تھے۔ 1979 ءمیں انقلاب ایران کے بعد پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات فلسطین کی تحریک مزاحمت کی علامت تھے۔ پھر مسلم ممالک کے حکمرانوں نے انہیں امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل سے مذاکرات کی طرف دھکیلا۔ 1993 ءمیں اوسلو معاہدے کے تحت یاسر عرفات کو ایک کمزور سی فلسطینی ریاست دیکر پی ایل او کو خانہ جنگی میں الجھا دیا گیا، پی ایل او کی ساکھ مجروح ہونے سے حماس سامنے آئی۔ حماس کے اکثر رہنمائوں کا تعلق ان علاقوں سے تھا جن پراسرائیل نے ناجائز قبضہ کرلیا۔ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین الجورہ میں پیدا ہوئے۔ اسماعیل ہانیہ کے خاندان کا تعلق بھی الجورہ سے ہے۔ یہ گائوں ایک شہر المجدل سے متصل تھا۔1948ءمیں الجورہ اور المجدل کو فلسطین میں شامل کیا گیا لیکن اسرائیل نے ان پر قبضہ کرکے یہاں اشکلون کے نام سے نیا شہر آباد کردیا۔ غزہ میں زیادہ تر ان فلسطینی مہاجرین نے پناہ لی جنہیں اسرائیلی فوج نے ان کے گھروں سے بے دخل کردیا ۔ اس وقت اسرائیل فلسطینی ریاست کے ان ساٹھ فیصد علاقوں پر قابض ہے جو قرارداد 181کے تحت فلسطینیوں کو دیئے گئے۔ ان میں یافا اور الجلیل سے بیرالسبعا سمیت ایسے کئی عرب علاقے شامل ہیں جن کے نام بدل دیئے گئے ۔ یافا سے مشرق میں پانچ کلو میٹر پر ایک قدیم بستی قریۃ سلمہ کے نام سے آباد تھی۔ اس مقام پر مشہور صحابی سلمہ بن ہشام ؓ شہید ہوئے اور یہ بستی انہی کے نام پر آباد تھی اور یہاںانکی قبربھی تھی،اسرائیل نے اس بستی پر بلڈوزر چلا دیئے اور اس جگہ کو کفر شیلم کا نام دیدیا۔ کسی زمانے میں اشکلون اور سلمہ غزہ کا حصہ تھے۔ غزہ میں ایک مسجد کا نام سید ہاشم بن عبد مناف ہے۔ یہ مسجد سید ہاشم بن عبدمناف کے نام پر ہے جو نبی کریم حضرت محمدﷺکے پردادا تھے اور ان کی اولاد بنو ہاشم کے نا م سے مشہور ہوئی۔ وہ تجارت کے سلسلے میں غزہ آئے۔ یہاں ان کا انتقال ہوگیا اور وہ غزہ میں دفن ہوئے۔ امام شافعی کا تعلق بھی بنو ہاشم سے تھا۔ ان کے والد ادریس غزہ میں رہتے تھے۔ امام شافعی بھی غزہ میں پیدا ہوئے ان کے والد ادریس کی قبر غزہ میں ہے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو اسی غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ پچاس برس پرانا ہے اور اگلے پچاس سال تک اس پر عمل نہیں ہوگا۔ جو مسلم حکمران مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولا قرار دیتے ہیں کیا وہ یہ بتائیں گے کہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ ختم کرائے بغیر یہ فارمولا قابل عمل ہے یا نہیں؟ فلسطین اور کشمیر میں رپورٹنگ کرنے والے جنوبی افریقہ کے صحافی آزاد عیسیٰ نے اپنی کتاب HOSTILE HOMELANDS میں نیتن یاہو اور نریندر مودی کے خفیہ اتحاد کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی نے اسرائیل کی مدد سے کشمیرکو نیا غزہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر ہم غزہ والوں کو نہ بچا سکے تو کشمیریوں کو بچانا مشکل ہوگا۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ پچاس سال بعد ہماری اولادیں ہمیں کس نام سے یاد کریں گی؟۔

تازہ ترین