کراچی (رپورٹ: محمد منصف) عاشورہ بم دھماکہ کیس سندھ پولیس کے تفتیشی نظام کیلئے سوالیہ نشان بن کر رہ گیا، 16 سال گزر گئے لیکن دہشت گردوں کا سراغ نہ لگانے میں پولیس ناکام ہے، 3 مفرور ملزمان کو مبینہ مقابلے میں مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا تاہم عدالت میں پولیس مقابلے کی کوئی رپورٹ جمع نہیں کروائی گئی اور مقدمہ تاحال التواء کا شکار ہے، سانحہ میں 45 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ عاشورہ بم دھماکہ سانحہ کو 16 سال گزر گئے لیکن پولیس ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں تاحال ناکام ہے۔ 15 سال قبل کالعدم تنظیم کے تین دہشت گرد جو پولیس کی تحویل سے مقدمہ سماعت کے بعد عدالتی احاطے سے فرار ہوگئے تھے انہیں کو دوبارہ گرفتار کرنے میں بھی ناکام ہے جو مبینہ طور پر حملے میں ملوث تھے، محکمہ پراسیکیوشن نے دعویٰ کیا تھا کہ تین مفرور ملزمان قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔ تاہم کیس میں کسی مقابلے کی کوئی رپورٹ جمع نہیں کروائی۔ 28 دسمبر 2009 کو ایم اے جناح روڈ پر عاشورہ کے مرکزی جلوس کے دوران ایک ہولناک بم دھماکے میں 45 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ استغاثہ کے مطابق کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے ملزمان مرتضیٰ عرف شکیل، محمد ثاقب فاروقی، وزیر محمد اور مراد شاہ کو جنوری 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کیخلاف 2009 میں عاشورہ بم دھماکہ کیس درج ہے۔ عدالتی عملے نے جنگ کو بتایا کہ ماتمی جلوسوں پر ٹارگٹڈ حملوں سے متعلق چار مقدمات، جن میں عاشورہ کے مرکزی جلوس پر ایک مقدمہ بھی شامل ہے جبکہ محکمہ پراسیکیوشن نے بتایا کہ گواہوں نے مجسٹریٹ کے روبرو مبینہ طور پر 4 ملزمان کی شناخت کی تھی ملزمان کو 2010 میں ہاکس بے میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور انہوں نے مبینہ طور پر حملوں کا اعتراف کیا تھا، تاہم گرفتاری کے بعد ملزمان اس وقت سٹی کورٹ سے فرار ہوئے جب 20 جون 2010 کو اینٹی کار لفٹنگ سیل کے ایک اور مقدمے میں انہیں پیشی کیلئے لایا گیا تھا۔ پراسیکیوشن کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جنگ کو بتایا، مشتبہ افراد کے فرار ہونے کے بعد تفتیشی افسر نے عدالت کو اسکے بارے میں آگاہ کیا اور فاضل نے مقدمہ داخل دفتر کر دیا۔ واضح رہے کہ چار ملزمان میں سے ایک ملزم مراد شاہ فرار ہوتے ہوئے مارا گیا تھا جبکہ دیگر ملزمان کے خلاف 2010 سے تاحیات ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کئے ہوئے ہیں اور پولیس کو حکم دیا ہوا ہے کہ ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کر کے عدالت میں پیش کریں۔ واضح رہے کہ پولیس کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (SIU) نے انکی گرفتاری کے وقت دعویٰ کیا تھا کہ مشتبہ افراد کالعدم تنظیم سے وابستہ ’’ہائی پروفائل‘‘ ملزمان ہیں تاہم اس کے باوجود ملزمان پر سینٹرل جیل کے اندر مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا اور جیل حکام نے مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر انہیں سٹی کورٹس بھیج دیا تھا۔ سینئر وکیل قانونی ماہر حیدر امام رضوی ایڈووکیٹ کے مطابق یہ تفتیشی افسر کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ ایک خط کے ذریعے محکمہ داخلہ سے سفارش کرتے کہ وہ ہائی پروفائل کیسز کا جیل ٹرائل کروائیں۔ قانونی ماہر حیدر امام نے مزید کہا کہ ایسے ہائی پروفائل کیسز میں کارروائی کا تعطل ہونے سے ہمیشہ ملزمان کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ استغاثہ کے گواہ اپنی رہائش گاہیں تبدیل کر لیتے ہیں یا انتقال کر جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گواہ کیلئے سالوں تک درست ثبوت یاد رکھنا مشکل ہے جبکہ تفتیشی افسران کے لئے کیس پراپرٹی، پولیس فائلوں کو برقرار رکھنا اور اپنے گواہوں سے رابطے میں رہنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔