اقبال نے کہا تھا کہ
ریگ عراق منتظر، کشت حجاز تشنہ کام؍خون حسین بازدہ کوفہ و شام خویش را
ترجمہ:’’عراق کی ریت انتظار کر رہی ہے اور حجاز( مکہ مدینہ) کے کھیت پیاسے ہیں، کوفہ و شام کو پھر سے خون حسین کی ضرورت ہے، حق کی آواز بلند کرنے والے کی ضرورت ہے‘‘۔
میں حیران ہوں کہ ایک صدی پہلے اقبال کس طرح آج کے حالات بیان کر رہے تھے، کس طرح آج کا نقشہ بیان کر رہے تھے اور جو کچھ ہو رہا ہے، اسے کس طرح سامنے لا رہے تھے، یقیناً اقبال ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری میں ماضی، حال اور مستقبل کی عکاسی موجود ہے، اقبال کا موضوع سخن خاص طور پر امت مسلمہ ہے، وہ ایک سچے عاشق رسول ﷺ اور مدحت اہل بیت ؓکرنے والے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک ایسے دانشور ہیں جو مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ یاد کرواتے ہیں پھر ان کے سامنے حال کی بد حالی کے سارے مناظر رکھ دیتے ہیں، اس بدحالی کی وجوہات بھی بیان کرتے ہیں اور پھر مستقبل کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی پیش کرتے ہیں، وہ غلاموں کو آزادی کا درس دیتے ہیں اور خاص طور پر امت مسلمہ کو پکار پکار کر یہ کہتے ہیں کہ جب تک مسلمان مکمل آزادی حاصل نہیں کر لیتے، اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایک اور شعر میں وہ کہتے ہیں کہ
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے؍کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
علامہ اقبال دل کی دنیا کے آدمی ہیں، اسی لئے وہ کہتے ہیںکہ صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق؍معرکہء وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق مسلمانوں کے باہمی اختلافات ہمیشہ ہی اقبال کو ناپسند رہے، فرقہ واریت میں الجھے ہوئے لوگوں کے لئے انہوں نے کہاکہ حرم پاک بھی، اللّٰہ بھی، قرآن بھی ایک؍کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک مسلمان ملکوں کی غلامی، اقبال کو کبھی پسند نہ آئی، وہ ہمیشہ غلامی کو کوستے رہے اور آزادی کی تڑپ بیدار کرتے رہے، اسی لئے اقبال کہتے ہیں کہ یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو؍مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے!اقبال کو مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے عجیب و غریب انداز کبھی پسند نہ آئے، انہوں نے منافقانہ روش کی ہمیشہ مخالفت کی، حق و باطل میں فرق جانتے ہوئے اقبال یوں محو کلام ہوتے ہیں کہ
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری؍بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
اقبال کے اشعار کی روشنی میں آج کی امت مسلمہ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ جس ملوکیت کے خلاف معرکہ کربلا برپا ہوا تھا، وہ ملوکیت تو آج بھی مسلمانوں کے کئی ملکوں میں ہے، جس بادشاہت کے خلاف خاندان رسول ؐقربان ہوا تھا، وہ بادشاہت تو بہت سے مسلمان ملکوں میں ہے، نہایت افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اکثر مسلمان ملکوں میں خاندانی بادشاہتیں قائم ہیں، وہاں کے عوام اور حکمرانوں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے، چند ایک مسلمان ملکوں میں نام نہاد جمہوریت ہے مگر وہاں بھی ظلم کا راج ہے، وہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ۔ مسلمان ملکوں میں آج بھی حکمرانوں کا خوف ہر دروازے کے سامنے کھڑا ہے بلکہ یہ خوف دروازہ کھٹکھٹائے بغیر دیواریں پھلانگتا ہے، یہی خوف تشدد کرتا ہے، خوف بھی عجیب چیز ہے، کربلا اور اس کے آس پاس تین طرح کے لوگ تھے، دو خوف میں مبتلا تھے، ایک نے خوف اتار کے کہیں دور پھینک دیا تھا، وہی سچے لوگ تھے، جو شہید ہوئے، جن کے خیمے جلائے گئے۔ خوف میں مبتلا جو دو طرح کے لوگ تھے، ان میں یزید اور اس کا پورا لشکر شامل تھا، اس کے علاوہ کوفہ کے لوگوں کو خوف تھا، یزید اور اس کے ساتھیوں کو عوام کا خوف تھا کہ عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں، کہیں ان کے عہدے چلے نہ جائیں، اسی لئے وہ لوگوں پر تشدد کرتے تھے، ظلم کرتے تھے، نا انصافیاں کرتے تھے، اس وقت کے سارے منصف یزید کے تابعدار تھے، اس وقت کے سرکاری نوکر بھی یہ کہتے تھے کہ ہمیں پتہ ہے کہ سامنے نواسہ رسول ہے مگر ہم مجبور ہیں، مجبوریوں کی یہ کوکھ آج بھی سلامت ہے۔ وہاں دوسرا طبقہ خوفزدہ کوفی تھے، ابن زیاد نے کوفہ کی گلیوں میں خوف پھیلا رکھا تھا، اتنا بڑا سانحہ ہو گیا اور کوفی گھروں میں دبک کر بیٹھے رہے، کوفیوں پر موت اور تشدد کا خوف تھا، اسی خوف نے انہیں خاموشی میں مبتلا کر رکھا تھا، یہی خاموشی ان کے لئے لعنت بن گئی۔ آج کی مسلمان دنیا میں بھی تین طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ ہیں جو بے خوف ہو کر حق کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں، دوسرے اسی طرح کے خوفزدہ حکمران ہیں جو ظلم کرتے ہیں جنہیں اقتدار کے چھن جانے کا خوف ہے اور تیسرے وہ لوگ ہیں جو کوفیوں کی طرح خاموش ہیں۔ خاموش رہنے والوں کو پچھتانا پڑیگا، جنہیں اقتدار کے چھن جانے کا ڈر ہے، اقتدار ان کے پاس نہیں رہے گا، آخری فتح انہی حق پرستوں کی ہو گی جو راہ حسینؓ کے مسافر ہیں۔ امت مسلمہ کو اقبال پھر سے کہہ رہا ہے کہ
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ