کچھ دنوں سے آصف زرداری کو ایوان صدر سے نکالے جانیکی افواہیں زیر گردش ہیں۔ گزشتہ دور میں انکے ساتھ صدارتی ترجمان کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والے فرحت اللہ بابر نے اپنی حالیہ کتاب میں کچھ ایسے واقعات بیان کیے ہیں جن سے صورتحال کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ 10اکتوبر2011ء کو برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں ایک مضمون شائع ہوا جس سے پاکستان کی سیاست میں بھونچال آگیا۔ منصور اعجاز نے دعویٰ کیا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے ایک ہفتہ بعد یعنی 9مئی 2011ء کو ایک سینئر پاکستانی ڈپلومیٹ نے ان سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ صدر زرداری وائٹ ہائوس کے نیشنل سیکورٹی حکام کو ایک ہنگامی نوعیت کا پیغام بھیجنا چاہتے ہیںکہ ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کیے جانے کا خدشہ ہے لہٰذا امریکی انتظامیہ مداخلت کرے اور جنرل اشفا ق پرویز کیانی کو کہا جائے کہ ایسی مہم جوئی سے باز رہیں۔بعد ازاں یہ دعویٰ کیا گیا کہ منصور اعجاز سے رابطہ کرنیوالے سفارتکار دراصل امریکہ میںپاکستان کے سفیر حسین حقانی ہیں۔ پاکستان میں یہ قومی سلامتی کا معاملہ قرار پایا اور اسے میموگیٹ کا نام دیا گیا۔ فرحت اللہ بابر کے مطابق میمو گیٹ میںبظاہر تو حسین حقانی کیخلاف چارج شیٹ تھی مگر اصل نشانہ صدر زرداری تھے۔حسین حقانی پر دبائو بڑھنے لگا تو یہ باتیں ہونے لگیں کہ وہ صدر زرداری کیخلاف سلطانی گواہ بن جائیں گے ۔22نومبر 2011ء کو وزیراعظم کے دفتر میں ایک اہم ترین نشست ہوئی جس میں صدر زرداری اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شرکت کی۔ اس بیٹھک میںفیصلہ ہوا کہ حسین حقانی استعفیٰ دیدیں تاکہ شفاف انداز میں تحقیقات کو یقینی بنایا جاسکے۔ حسین حقانی نے استعفیٰ دیدیا ہے تو کہا اب مجھے جانے دیں،لیکن آصف زرداری کو معلوم تھا کہ دیوتا حسین حقانی کی بھینٹ پر مطمئن نہیں ہونگے اور مزید قربانی کا مطالبہ کرینگے۔ میمو گیٹ کی بنیاد پر صدر زرداری کیخلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ دائر کرکے ٹرائل کرنے کی باتیں ہونے لگیں تو صدر زرداری نے جواب آں غزل کے طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرکے سازش کا بھانڈا پھوڑنے کا اعلان کردیا۔ فرحت اللہ بابر کے مطابق صدر آصف زرداری بظاہر تو پراعتماد تھے مگر وہ شدید دبائو کا شکار تھے۔ صفحہ نمبر 303پر دستیاب تفصیلات کے مطابق اس دبائو کے اثرات پہلی بار 29نومبر 2011ء کو تب سامنے آئے جب سری لنکن وفد کی ایوان صدر میں زرداری سے ملاقات تھی۔ فرسٹریشن کا یہ عالم تھا کہ صدر آصف زرداری بلاتوقف اور بے ربط بولتے چلے گئے۔ سلالہ پوسٹ پر امریکی حملے سے متعلق اظہار خیال کرنا شروع ہوگئے اور کہنے لگے، آصف زرداری کا ٹرائل نہیں ہوگا، امریکہ کا ٹرائل ہوگا۔ میں افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر ہوں۔ اس پر سلمان فاروقی نے اے ڈی سی کو اشارہ کیا، جنہوں نے ملاقات ختم ہونے کا علان کیا۔ اسکے بعد صدر زرداری کی باقیماندہ مصروفیات منسوخ کردی گئیں۔ کچھ دن بعد زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا مسودہ تیار کرنے کیلئے مشیروں کااجلاس طلب کیا۔ایک بار پھر صدرزرداری دو گھنٹے تک خودکلامی کے انداز میں بولتے چلے گئے ،بے ربط گفتگو کے دوران انکی آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی ،لہجے میں تلخی آتی گئی ،ایک موقع پر انکا پورا جسم لرزنے لگا،زبان لڑ کھڑانے لگی۔ انکا چہرہ مرجھا گیا،گردن دائیں طرف صوفے پر ڈھلک گئی ۔ طبی امداد کے کیلئےڈاکٹر کو طلب کیا گیااور انہیں انکی خواب گاہ کی طرف بھیج دیا گیا۔صدر زرداری کو علاج کی غرض سے دبئی لیجانے کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ لیجانے کیلئے ہیلی کاپٹر ایوان صدر لینڈ کرگیا۔ مگر اب ایک اور مسئلہ آن کھڑا ہوا۔صدر زرداری حسین حقانی کو اپنے ساتھ لیجانا چاہتے تھے جبکہ حسین حقانی نو فلائی لسٹ پر تھے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ،اگر آپ حقانی کو ساتھ لے گئے تو حکومت ایک دن بھی برقرار نہیں رہے گی۔ مگر آصف زرداری حقانی کے بغیر سفر کرنے کو تیار نہ تھے۔ اس موقع پر کسی نے یہ تجویز بھی دی کہ صدر زرداری کو بیہوش کرکے جہاز میں بٹھائیں اور حقانی کے بغیر دبئی لیجائیں ۔ صدر زرداری لوڈڈ گن کیساتھ حسین حقانی کو ساتھ لیکر ہیلی کاپٹر نمبر ایک میں سوار ہوگئے ،30منٹ تک ہیلی نے اُڑان نہ بھری۔ بظاہر تو یہ بتایا گیا کہ دبئی حکام کی طرف سے اجازت ملنے کا انتظار ہے مگر حقیقت کچھ اور تھی۔ صورتحال اس قدر گھمبیر تھی کہ صدر زرداری کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم نے انکے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔ انکا خیال تھا کہ صدر زرداری کے پاس لوڈڈ گن ہے، وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور بلاول بھٹو زرداری ہیلی پیڈ پہنچے اور صدر زرداری کو قائل کرکے ہیلی کاپٹر سے نیچے اُتارا اور بتایا کہ اب آپ کہیں نہیں جارہے، حسین حقانی یہیں ایوان صدر میں آپ کیساتھ ہونگے۔ قصہ مختصر ،صدر زرداری کو حقانی کے بغیر دبئی جانا پڑا تو کہا گیا کہ وہ اب کبھی واپس نہیں آئینگے لیکن وہ نہ صرف پاکستان واپس آئے بلکہ اپنی مدت صدارت پوری کی۔ میری معلومات کے مطابق اس بار بھی صحت اور زندگی نے ساتھ دیا تو وہ اپنا پانچ سالہ دور مکمل کریں گے۔