امریکی صدر ٹرمپ نے 4جولائی کو سینٹ اور کانگریس سے ایک ایسا بل منظور کروایا ہے جسکے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس بل کی وجہ سے امریکہ ،چین سے ٹیکنالوجی کی جنگ میں پیچھے رہ جائے گا۔اس بل کو منظور کرتے ہوئے کانگریس نے نہ تو اسکی سماعت کی اورنہ ہی توانائی کے ماہرین کی اس بارے میںرائے لی گئی۔اس بل میں اور چیزوںکے علاوہ صدر ٹرمپ نے فوسل فیول انڈسٹری کو واپس لانے اور متبادل ذرائع توانائی پر پابندی لگانے کا قانون پاس کر وا لیا ہے۔یاد رہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرنے والا ملک ہے ،جو اب تک 400بلین ٹن CO2خارج کر چکا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ بل اس وقت منظور کیا جا رہا تھا جب ٹیکساس میں 4گھنٹے میں اتنی زیادہ بارشیں ہوئیں جو پہلے چھ مہینوں کے عرصے میں ہوا کرتی تھیں جس سے سو سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئیںلیکن اسکے باوجود صدر ٹرمپ مسلسل ماحولیات دوست پالیسیوں کو ختم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے فورا ًبعد بھی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر تیل اور گیس کی تلاش کے منصوبوں پر عمل در آمد کریں گے جسکی وجہ سے امریکہ میں تیل اور گیس کی قیمتیں بہت کم ہو جائیں گی۔
صدر ٹرمپ بار بار توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو ’’لبرل‘‘قرار دے رہے ہیں حالانکہ دنیا بھر میں یہ ذرائع مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کی بڑھتی ہوئی بجلی کی مانگ کو بھی پورا کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب جو دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے ، وہ بھی مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کیلئے قابل تجدید ذرائع توانائی پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے صدر ٹرمپ نے تیل اور گیس کی پیداوار سے خارج ہونے والی اضافی میتھین ،جو عالمی حدت کا ایک بہت بڑا سبب ہے، پر بھی ماحولیاتی ٹیکس کو دس سال کیلئے موخر کر دیا ہے۔آج کسی بھی ملک کی سائنسی اور اقتصادی ترقی کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ وہ کتنی وافراور سستی بجلی پیدا کرکے مصنوعی ذہانت کو فروغ دے سکتا ہے کیونکہ اے آئی ہمیں بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ نئےمیٹریلز کی دریافت اور انتہائی پیچیدہ سائنسی دریافتوں میں مدد دے رہا ہے۔آنے والے دور میں سستی توانائی اور اے آئی کے درمیان یہ رشتہ دراصل کسی بھی قوم کی سائنسی اور اقتصادی ترقی کی راہ کو متعین کرے گا ۔لیکن اسکے بالکل برعکس صدر ٹرمپ نے امریکہ کی قابل تجدید توانائی کی صنعت کو نہ صرف مفلوج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ اس توانائی پر دی جانے والی ٹیکس مراعات کو’’دھوکہ‘‘قرار دیا ہے۔
بہت کم امریکیوں کو آج اس بات کا ادراک ہے کہ چین امریکہ سے اس میدان میں کتنا آگے نکل چکا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال2000میں چین 1300ٹیرا واٹ فی گھنٹہ اور امریکہ 3800ٹیراواٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرتا تھا۔ لیکن آج کے دور میں چین 10,000سے زائد ٹیرا واٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ امریکہ نے سال 2000ء سے اب تک اپنی توانائی میں صرف 500ٹیراواٹ کا اضافہ کیا ہے۔حالانکہ چین نے بھی بجلی کی پیداوار کا آغاز تو کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے کیا تھا لیکن حالیہ برسوں میں اس نے یہ ترقی آبی، شمسی ، ہوائی اور بیٹریوں کے ذریعے کی ہے جو تیز، سستا اور سب سے بڑھ کر ماحول دوست توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے چین کی معیشت نہ صرف ماحول دوست ٹیکنالوجی کے گرد گھومنے لگی ہے،بلکہ اسے امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی تنائو سے نمٹنے کا ایک اسٹرٹیجک ذریعہ بھی فراہم کرتی ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ میں اب بھی ٹیکساس میں محض 18ماہ میں بیٹری ا سٹوریج کے ساتھ نیا سولر فارم تعمیر کرکے اسے ملکی برقی نظام سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔اسی وجہ سے ٹیکساس نے پچھلے تین ماہ میں 2596میگا واٹ ماحول دوست انرجی کا اضافہ کیا ہے۔اسی طرح ٹیکساس نے پچھلے ایک سال میں 10,000میگا واٹ بجلی کا اضافہ کیا ہے اور یوں اس نے کیلی فورنیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے امریکہ کی سب سے بڑی شمسی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔امریکی توانائی کے ایک ادارے کے مطابق 2024ء تک امریکہ کے گرڈ میں شامل ہونے والی بجلی کا 81فیصد حصہ شمسی توانائی اور اسٹوریج بیٹریوں پر مشتمل تھا اور اگر ٹرمپ کا قابل تجدید ذرائع توانائی کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری رہا تو 2035تک امریکہ میں بجلی کی ہول سیل قیمتوں میں نہ صرف 50 فیصد کا اضافہ ہوجائے گا بلکہ اس سیکٹر میں 830,000 ملازمتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج امریکہ کے پاس تیل اور گیس کے بڑے ذرائع موجود ہیں لیکن ان کو بجلی میں تبدیل کرنے کیلئے بڑی بڑی ٹربائنز کی ضرورت ہوگی جو کسی بھی طرح2030سے پہلے نصب نہیں کی جاسکتیں ۔ اسکے ساتھ ساتھ ٹرمپ کے نئے اسٹیل اور ایلومینیم پر لگنے والے ٹیرف کے بعد یہ ٹربائنز اور زیادہ مہنگی ہو جائیں گی۔
وال اسٹریٹ جرنل میں توانائی کے ایک ماہر نے ٹرمپ کی اس پالیسی کے بارے میں کہا ہے کہ اس بل کی وجہ سے امریکہ،ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے حالیہ بل نے قابل تجدیدتوانائی پر پابندیوںکے ذریعے چین کو عالمی طاقت بننے کا راستہ فراہم کر دیا ہے۔یہ بات اب تقریباً طے ہے کہ مستقبل میں شمسی توانائی، ہوائی بجلی ، برقی اور خودکار گاڑیاں جیسے جدید شعبوں کی باگ ڈور چین کے ہاتھ میں ہوگی۔آج ٹرمپ کی انتظامیہ میں کوئی بھی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو اسے اس پالیسی اور ہٹ دھرمی سے روک سکے ۔ اسی وجہ سے امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو اپنی اس غلطی کا احساس دس سال بعد ہوگا جب عالمی تسلط کی جنگ میں چین، امریکہ سےکہیں آگے نکل جائے گا۔