ایک تحقیقی مقالے میں خبردار کیا گیا ہے کہ ڈاکٹرز باقاعدگی سے ہائی بلڈ پریشر کا باعث بننے والے ایک عام ہارمون کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
محققین نے جرنل آف کلینیکل، کرائنولوجی اینڈ میٹابولزم میں رپورٹ کیا ہے کہ دل کے ماہرین کے پاس آنے والے ہائی بلڈ پریشر کے 30 فیصد تک مریضوں اور پرائمری کیئر میں دیکھے جانے والے 14 فیصد مریضوں میں پرائمری الڈواسٹیرونزم نامی حالت پائی جاتی ہے۔
محققین نے کہا ہے کہ اس کے باوجود بہت سے لوگوں کا اس حالت کے لیے کبھی خون کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا، جس میں ایڈرینل گلینڈز بہت زیادہ الڈواسٹیرون نامی ہارمون پیدا کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق دیگر افراد کا ٹیسٹ ہائی بلڈ پریشر کی ابتدائی تشخیص کے سالوں بعد کیا جاتا ہے، اس وقت تک یہ حالت صحت کی شدید پیچیدگیوں کا سبب بن چکی ہوتی ہے۔
اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر گیل ایڈلر جو بوسٹن کے برگھم اینڈ ویمنز اسپتال میں ماہرِ غدودیات ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پرائمری الڈوسٹیرونزم والے افراد کو پرائمری ہائپرٹینشن والے افراد کے مقابلے میں دل کی بیماریوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
انہوں نے ایک نیوز ریلیز میں کہا ہے کہ ایک سستے خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ہم پرائمری الڈواسٹیرونزم میں مبتلا زیادہ لوگوں کی شناخت کر سکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ وہ اس حالت کا مناسب علاج حاصل کریں۔
محققین نے بتایا ہے کہ الڈواسٹیرون خون میں سوڈیم اور پوٹاشیم کی سطح کو متوازن کرنے میں مدد کرتا ہے، اس کی بہت زیادہ سطح لوگوں میں پوٹاشیم کی کمی کا باعث بن سکتی ہے جبکہ جسم زیادہ سوڈیم برقرار رکھتا ہے، جس کے نتیجے میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے پس منظر کے نوٹس میں کہا ہے کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پرائمری الڈوسٹیرونزم والے افراد میں فالج کا امکان تقریباً 2.6 گنا زیادہ ہوتا ہے، ہارٹ فیلیئر کا امکان دوگنا ہوتا ہے، دل کی دھڑکن کے بے ترتیب ہونے کا امکان 3.5 گنا زیادہ ہوتا ہے اور دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان 77 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
نئے مقالے میں پیش کردہ گائیڈ لائنز تجویز کرتی ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص والے ہر شخص کے الڈواسٹیرون کی سطح کی جانچ کی جائے اور پرائمری الڈواسٹیرونزم میں مبتلا افراد کو اس حالت کے لیے مخصوص علاج فراہم کیا جائے۔
جانز ہاپکنز میڈیسن کے مطابق مطابق ہائی بلڈ پریشر کے ان مریضوں کو متوازن کم سوڈیم والی غذا کھانے اور وزن کم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے بھی کہا جاتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کیلئے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔