برطانیہ بھر میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے دوران 70 سے زائد افراد کی گرفتاری نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پولیس کی جانب سے احتجاج کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک خطرناک روایت قائم کر رہا ہے، جس سے لوگوں کی آزادیِ اظہار اور جمہوری حقِ احتجاج متاثر ہو رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں بعض مظاہرین نے ’فلسطین ایکشن‘ نامی تنظیم کا ذکر کیا، جو برطانیہ میں اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے خلاف مظاہرے اور کارروائیاں کرتی ہے۔ اس تنظیم کو برطانوی حکومت نے دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا، مگر پولیس نے اس سے متعلق نعرے یا پوسٹر اٹھانے والوں کو حراست میں لیا۔
اسکاٹ لینڈ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ گلاسگو شہر میں ایک شخص کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ ایک ایسا پوسٹر اُٹھائے ہوئے تھا، جس پر بقول پولیس، ایک ’پابندی شدہ تنظیم‘ کی حمایت کا اظہار تھا تاہم پولیس نے یہ واضح نہیں کیا کہ پوسٹر پر کیا لکھا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر مظاہرہ پُرامن ہو اور کوئی (پابندی شدہ) تنظیم سے متعلق نہ ہو، تو گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان گرفتاریوں کو آزادیِ اظہار اور جمہوری حقوق پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کا یہ رویہ خاص طور پر فلسطین کے حامی مظاہرین کے خلاف سخت ہوتا جا رہا ہے۔
لبرٹی تنظیم کی ترجمان نے کہا ہے کہ احتجاج ایک جمہوری حق ہے، اسے دہشت گردی قرار دینا نہ صرف قانون کی روح کے خلاف ہے بلکہ معاشرے میں خوف پیدا کرتا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پولیس کسی تنظیم کی حمایت کو بغیر قانونی ثبوت کے جرم قرار دے، تو یہ قانون کا غلط استعمال ہو گا۔
ایک معروف ماہر قانون نے کہا یہ صرف نظم و ضبط کا معاملہ نہیں، بلکہ بنیادی انسانی اور آئینی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اگر پُرامن مظاہرے کو بھی جرم سمجھا جائے تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض اراکین پارلیمنٹ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ حالیہ گرفتاریوں کی قانونی بنیاد واضح کرے اور یہ یقین دہانی کرائے کہ پُرامن مظاہرہ کرنے والے شہریوں کو تحفظ حاصل ہے، یہ معاملہ برطانیہ میں آزادیِ رائے، سیاسی اختلاف اور شہری آزادیوں کے حوالے سے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔